الیکشن کراؤ، گھر جاؤ

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے مسائل ہیں کہ تیزی سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

اشیائے ضرورت کی قیمتوں اور یوٹیلیٹی بلز میں شدید عدم استحکام، بجلی، پٹرول، گیس کی قیمتوں میں روز افزوں اضافہ اور قدم قدم پر ٹیکسز کے بوجھ نے مل کر عوام کا دیوالیہ نکال دیا ہے اور ان میں مزید کوئی بوجھ اٹھانے کی سکت ختم ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھ کر ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پوری قوم یکبارگی چیخ اٹھی ہے۔

حالات اس قدر سنگین اور نازک رخ اختیار کرگئے ہیں کہ ایسا لگتا ہے اشتعال، اضطراب اور غم و غصے کا آتش فشاں پھٹنے کو ہے۔ گزشتہ دن اس کی جھلک ملک گیر ہڑتال میں عوام کی بڑے پیمانے پر شمولیت اور شرکت میں نظر آئی کہ کیسے جماعت اسلامی جیسی ایک نسبتاً چھوٹی جماعت جو عام انتخابات میں کبھی نمایاں نہیں رہی، کی مہنگائی کیخلاف احتجاج کی کال اور اپیل پر پوری قوم نے لبیک کہا اور اسے اپنا مسئلہ اور درد سمجھ کر اس میں بھرپور حصہ لیا۔

یہ اس امر کا مظہر ہے کہ حالات اب اس موڑ پر پہنچ چکے ہیں کہ عوام کے اشتعال اور شدید غم و غصے کو بڑے پیمانے پر احتجاج میں بدلنے کیلئے کسی ایک جماعت اور رہنما کے آگے بڑھنے کی دیر ہے۔ ایسے حالات دو دھاری تلوار کی مانند معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس بات کا یقینی خدشہ رہتا ہے کہ کوئی شخص اور جماعت غلط مقاصد کیلئے عوام کے اشتعال کو استعمال کرے یا عوام کے غیظ و غضب سے ناجائز فائدہ اٹھائے۔ اس بات کا بھی امکان موجود ہوتا ہے کہ دشمن موقع سے فائدہ اٹھا کر ملک میں بڑے پیمانے پر انتشار، خلفشار اور انارکی کو ہوا دے، جس کے نتیجے میں ریاست کو ناقابل تلافی نقصان اور تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
آئی ایم ایف کے جس پیکیج کو ملکی معیشت کیلئے ”لائف لائن“ باور کرکے گزری حکومت اطمینان کے ساتھ قوم کے گلے میں ڈال گئی تھی، اس کی شرائط پر عمل در آمد نے عوام کی ٹوٹتی کمر پر ایک اور زور دار لات رسید کرکے انہیں زمین سے لگا دیا ہے، جبکہ ریلیف کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔

منتخب حکومتوں کی طرح نگرانوں نے بھی عوام پر بوجھ منتقل کرنے کیلئے آئی ایم ایف کے دباو کی جگالی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آئی ایم ایف کا دباو ہے اور اس کی شرائط کڑی ہیں، تاہم پہلی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف عوام کا درد سر ہے اور نہ ہی کوئی حکومت عوام سے پوچھ کر آئی ایم ایف کے پاس گئی ہے اور نہ ہی یہ بھاری بھرکم سودی قرض عوام کی بہبود اور عوام کی ضروریات کیلئے لیے جا رہے ہیں۔

اصولی طور پر عوام کا آئی ایم ایف سے کوئی لینا دینا نہیں، اس لیے عوام کے سامنے اس راگ کا کوئی جواز نہیں کہ آئی ایم ایف کا دباو ہے، اس لیے ٹیکسز بڑھا رہے ہیں۔ دوسرا امر یہ کہ معاہدے کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کو اخراجات اور خساروں میں کمی کی ہدایات ہیں، جس کیلئے کوئی حکومت تیار ہے اور نہ ہی یہ ہدایات عوام کے سامنے بیان کی جاتی ہیں۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ قرضوں کے نا قابل تحمل بوجھ کے باوجود حکومتی سطح پر غیر ضروری اور غیر پیداواری اخراجات کا سلسلہ ہے کہ کم ہونے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ فنڈز کے ضیاع کے شگاف پاٹنے کیلئے کوئی حکومت قرار واقعی کوشش کرنے پر آمادہ نہیں۔ سول و فوجی افسران سے لیکر عدل کے ایوانوں تک مسرفانہ اخراجات کا ہوشربا سلسلہ ہے کہ بہت ہی نارمل انداز میں معمول کے مطابق جاری ہے، جس کا مطلب یہی ہے کہ مقتدر طبقہ کسی صورت اپنی خو بدلنے پر آمادہ نہیں ہے۔
نگران وزیر اعظم نے حسب معمول حکمرانوں کی سی بے حسی کے ساتھ واضح کہہ دیا ہے کہ نگران حکومت کے پاس ریلیف کا کوئی اختیار نہیں۔ دوسری طرف عام انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن جو اس وقت ملک کے انتظام و انصرام کا چہرہ ہیں، کی باڈی لینگویج سے نہیں لگ رہا کہ وہ اپنا اصل فرض جلد انجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، چنانچہ الیکشن کے سوال پر بات گھمانے کی روش جاری ہے، جس نے آئین و دستور کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب نگران حکومت ریلیف دینے کا اختیار رکھتی ہے اور نہ ہی مسائل اور حالات کی ذمے داری اٹھانے کو تیار ہے تو پھر ملک میں کون ایسا ذمے دار ہے جس سے جواب حاصل کیا جائے؟ ملک اس طرح بغیر آئینی رہنمائی کے چل سکتا ہے اور نہ ہی ہائبرڈ انتظام سے عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں، اس پر طرہ مقتدر طبقہ اپنی روش بدلنے اور اپنی مراعات پر سمجھوتے کیلئے تیار نہیں، ایسے میں عوامی اشتعال بے قابو ہونے اور ملک میں بڑے پیمانے پر انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جلد از جلد الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے تاکہ عوامی مینڈیٹ کی حامل با اختیار حکومت آکر معاملات سنبھالنے کی کوشش کرے، بے اختیار نگرانوں کو مزید کھینچنے اور ہائبرڈ سسٹم سے حالات قابو ہوتے نظر نہیں آتے۔

Related Posts