عاشورۂ محرم کی تاریخی حیثیت اور ثقافتی و مذہبی روایات کا تعارف

مقبول خبریں

کالمز

zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟
Eilat Port Remains Permanently Shut After 19-Month Suspension
انیس (19) ماہ سے معطل دجالی بندرگاہ ایلات کی مستقل بندش
zia-1-1-1
دُروز: عہدِ ولیِ زمان پر ایمان رکھنے والا پراسرار ترین مذہب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عاشورۂ محرم کی تاریخی حیثیت اور ثقافتی و مذہبی روایات کا تعارف
عاشورۂ محرم کی تاریخی حیثیت اور ثقافتی و مذہبی روایات کا تعارف

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جس کی 10 تاریخ کو بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے جن میں سے واقعۂ کربلا سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے 10 محرم الحرام کے روز سن 61 ہجری میں کربلا کے میدان میں یزیدی فوج نے حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے رفقاء کو شہید کیا جبکہ اپنا سب کچھ لٹانے کے باوجود حسینی لشکر سچ کی فتح کا سب سے بڑا استعارہ بن گیا۔

ہر سال 10 محرم کے روز مسلمانانِ پاک و ہند سمیت دنیا بھر میں موجود مسلم قوم واقعۂ کربلا کو یاد کرتی ہے اور اپنے اپنے انداز میں کربلا کی عظیم شہادتوں کو یاد کرتی ہے جس کے دوران مختلف ثقافتی و مذہبی روایات پر عمل کیا جاتا ہے۔

آئیے محرم کے دوران نکالے جانے والے جلوسوں، مجالس، محرم کی سبیلوں اور شب دیگ کی طرح پکائی جانے والی حلیم کی روایات کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ محرم کے حوالے سے ثقافتی روایات کی اہمیت و افادیت کیا ہے؟

واقعۂ کربلا اور سبیل کی اہمیت

جب یزیدی لشکر نے امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کا محاصرہ کیا تو جنگ شروع کرنے سے قبل انہوں نے سب سے ظالمانہ کام یہ کیا کہ لشکرِ حسینی پر پانی بند کردیا۔

کربلا کا میدان بنیادی طور پر ایک صحراء ہے جہاں میدان کے مقابلے میں پیاس زیادہ شدید ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ لشکرِ حسینی پر کیا گزری ہوگی؟

پیاس کے باعث حضرت امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں موجود بچوں نے پانی مانگنا شروع کردیا جس پر حضرت عباس علیہ السلام حرکت میں آئے لیکن آپؑ کو شہید کردیا گیا۔

حضرت عباس کو علمدار بھی کہا جاتا ہے جبکہ آپ حضرت امام حسین علیہ السلام کے بھائی اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بیتے تھے جن کی پیدائش حضرت فاطمہ بنت حزام کے بطن سے ہوئی۔

میدانِ کربلا میں پیاس کی شدت کو یاد کرتے ہوئے آج بھی سبیلیں لگائی جاتی ہیں جن کا مقصد عوام کی پیاس کو بجھانا اور شہدائے کربلا کی شدید پیاس میں بے مثال قربانی کو یاد کرنا ہے۔ 

حلیم کی ثقافتی روایت اور محرم الحرام 

کراچی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں محرم الحرام کے دوران حلیم پکا کر اسے نذر و نیاز اور صدقہ و خیرات کے طورپر عوام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

عرب میں ہریس کے نام سے ایک پکوان کی روایت ملتی ہے جس کا ذکر 10ویں صدی عیسوی کی عربی پکوان کی سب سے پہلی معلوم کردہ کتاب میں ہے جس کا نام کتاب القبیخ تھا۔

ہریس نامی پکوان بغداد کے محلوں میں امیروں اور بادشاہوں کی مرغوب غذا سمجھا جاتا ہے جو آگے چل کر ایران اور توران اور بعد ازاں برصغیر میں عام ہوگیا۔

یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ابنِ بطوطہ نامی مشہور سیاح اور تاریخ دان نے اپنے ایک سفر نامے میں تحریر کیا ہے کہ ایرانی شہری مہمانوں کی تواضع ہریس سے کرتے ہیں جو گوشت، دال اور گھی سے تیار ہوتا ہے۔

سن 1947ء میں آزادئ ہند کے بعد مہاجر حلیم کو سندھ اور پنجاب میں لے آئے تاہم محرم الحرام کی نذر و نیاز حلیم سے دینا کوئی مذہبی روایت نہیں ہے۔

رمضان الکریم میں بھی حلیم سحر و افطار میں شوق سے استعمال کی جاتی ہے۔ پاکستان میں کراچی کی حلیم سب سے زیادہ مشہور ہے جسے محرم الحرام میں بھی خصوصی طور پر تیار کیاجاتا ہے۔ 

ذکرِ حسین علیہ السلام کی محفلیں 

ہر سال 10 محرم الحرام کے روز تعزئیے کا جلوس نکالا جاتا ہے جو اہلِ تشیع کی مذہبی و ثقافتی روایت کہی جاسکتی ہے جس میں اہلِ سنت سمیت دیگر فرقے شریک نہیں ہوتے تاہم ذکرِ حسین علیہ السلام کی محافل میں ہر فرقے کے مسلمان یکساں شریک ہوتے ہیں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی بے مثال قربانی کی یاد تازہ کرنے کیلئے علمائے کرام، ذاکرین اور مساجد کے خطیب خصوصی خطاب کرتے ہیں اور جذبۂ ایثارو جہاد کیلئے عوام کے دلوں کو گرماتے ہیں۔

علمائے اہلِ سنت، اہلِ حدیث، علمائے دیوبند اور دیگر مسالکِ اسلام سے تعلق رکھنے والے علماء بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی بے مثال قربانی پر عوام کو ایثار و قربانی کا درس دیتے ہیں۔

ایثار و قربانی کا حقیقی فلسفہ 

دینِ اسلام میں ایثار و قربانی کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اگر ہم عید الاضحیٰ کی بات کریں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ جس میں ایک دنبہ ذبح ہوا، اپنی بے حد محبوب شے کی قربانی کا پہلا واقعہ نظر آتا ہے۔

خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور واقعۂ کربلا کے درمیان صدیوں کا فاصلہ موجود ہے جس کے درمیان بے شمار ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں ایثار و قربانی کی لازوال مثالیں قائم کی گئیں تاہم واقعۂ کربلا ایسے تمام واقعات پر سبقت لے گیا۔

اسلام میں ایثار و قربانی کا حقیقی فلسفہ یہ ہے کہ آپ اپنی محبوب ترین شے کو اللہ کی راہ میں قربان کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسماعیل علیہ السلام بے حد عزیز تھے جنہیں اللہ کے برگزیدہ نبی اللہ کی راہ میں قربان کرنے کیلئے تیار ہو گئے۔

دوسری  جانب حضرت امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف اپنے اہلِ خانہ، عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کو اللہ کی راہ میں قربان کیا بلکہ خود بھی اپنی گردن کٹا کر سید الشہداء کہلائے۔ آپ کا ایثار و قربانی دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے اسلام کو زندہ کرنے کی حقیقی مثال ہے۔ 

بے بنیاد پروپیگنڈہ اور حقیقت 

موجودہ دور میں اہلِ اسلام کیلئے جتنا ضروری یہ سمجھنا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے اہل و عیال سمیت 72 جانثاروں کی قربانی کیوں دی؟ اتنی ہی یہ بات اہم ہے کہ آپ کے خلاف دشمنانِ اسلام کس قسم کا پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں؟

کچھ عاقبت نا اندیش افراد مختلف تاریخی حوالوں سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں کہ 61 ہجری کو محرم الحرام کے دوران گرمی نہیں بلکہ سردی تھی۔ اسی طرح کچھ اسلام دشمن یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ واقعۂ کربلا کوئی مذہبی نہیں بلکہ ایک سیاسی واقعہ تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر معاذ اللہ یہ بات سچ مان لی جائے کہ واقعۂ کربلا سیاسی تھا تو یہاں ایثار و قربانی کی بجائے اقتدار کی جنگ نظر آئے گی جس کا واقعۂ کربلا سے کوئی تعلق نہیں۔ تاریخِ اسلام سے ثابت ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت نہیں کی۔

یزید کی بیعت نہ کرنے کا مقصد ایک اسلام دشمن شخص کے ہاتھوں سے شریعتِ اسلامیہ کو بچانا تھا۔ اقتدار کی جنگ میں مفادات کا حصول ہرگز حضرت امام حسین علیہ السلام کا مقصد نہیں تھا بلکہ آپ نے  اپنا سارا اثاثہ لٹا کر اپنے نانا رسول اللہ ﷺ کے دین کی لاج رکھ لی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں۔ 

Related Posts