کرسمس کاتاریخی پس منظر

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کرسمس ایک ایسامذہبی تہوار ہے جو نہ صرف عالمگیر مسیحیوں کے لئے بلکہ تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے یکساں خوشیاں لے کر آتا ہے۔جشنِ عیدِ وِلادت المسیح میں مسیحی اور غیر مسیحی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور بغیر کسی تعصب و تنگ نظر کے اِس تہوار کو مناتے ہیں۔ ماہِ اِکتوبر ہی سے کرسمس کو دل و جان سے منانے کی رُوحانی اور جسمانی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں۔

کرسمس سے تین مہینے پہلے ہی دُنیا کے تمام ممالک میں بڑے بڑے شوپنگ مال کرسمس ٹریز، چرنیوںاور کرسمس کے سامان سے سج جاتے ہیں۔ سانتا کلائوز غریب لوگوں میں تحائف بانٹتے نظر آتے ہیں۔ عرب ممالک بھی اِس مسیحی تہوار کو جوش و جذے سے مناتے اورعید ِ ولادت المسیح کی خوشیوں اِضافہ کرتے ہیں۔

کیونکہ کرسمس ایک ایسا مقدس تہوار ہے جس دِن مسیحی عالمی سطح پر منجیٔ دو عالم، اَمن کے شہزادے، سلامتی کے رئیس، عجیب مُشیر، خُدائے قادر ،اَب ِ ابدی اور شاہ ِ دوعالم کا جنم دِن مناتے ہیں۔ جو اَمن اور محبت کو فروغ دینے کے لئے آیااور جس کے آنے سے ہر طرف سلامتی و خوشی کی فضا گونج اُٹھی۔ آج ہم اِسی عظیم تہوار کو تاریخ کے آئینہ میں دیکھیں گے۔

مقدس لوقا اِنجیل نویس یسوع مسیح کی پیدائش کا تاریخی پس منظر نہایت خوبصورتی،باریک بینی اور باترتیب بیان کرتا ہے۔ اپنی اِنجیل کے دوسرے باب میں وہ کچھ یوں لِکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی پیدائش اوغُطُس قیصر کے دَورِ سلطنت میں ہوئی۔اِسی قیصر نے یہ فرمان جاری کیا کہ تمام لوگوں کے نام لِکھے جائیں۔اور او غُطُس قیصر کے فرمان کی پیروی کرتے ہوئے ہر کوئی اپنے اپنے شہر کی طرف نام لِکھانے یا مردم شماری کے لئے گیا۔

مقدس یوسف کا تعلق دائود کی نسل سے تھا۔ اور وہ اپنی مُنکوحہ مریم کے ساتھ جلیل کے ایک شہرناصرت میں مقیم تھا۔ دائود کے گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے اُن پر فرض تھا کہ وہ بھی یہودیہ میں دائود کے شہر بیت الحم میں جاکر نام لِکھائے۔ اِسی غرض سے وہ اپنی منکوحہ مریم کو ساتھ لے کر سخت سردی کے موسم میں ناصر ت سے بیت الحم میں آیا۔ ناصرت سے بیت الحم کا فاصلہ نوے میل یعنی بیت الحم ناصرت سے ایک سو چوالیس کلومیڑ دور تھا۔

اُس زمانے میں لوگ آمد و رفت کے لئے گدھا گاڑی ،گھوڑوں اور اُونٹوں کا استعمال کرتے تھے۔ کوئی تیز رفتار سواری نہیں تھی جس کے ذریعے جلد اَز جلد منزل ِ مقصود تک پہنچا جا سکتا ۔ ایسے پتھریلے اور دُشوار راستوں سے گزرنے کے بعد جب وہ بیت الحم پہنچے تومقدسہ مریم جو کہ رُوح القدس کی قُدرت سے حامِلہ ہوئی تھی،اَب اُس کے وضع ِ حمل کا وقت بہت قریب آ پہنچا تھا۔سردی اِس قدر تھی کہ ہاتھ پائوں بے حرکت ہو رہے تھے۔

مقدس یوسف جوکہ مقدسہ مریم کا راستباز اور مددگارمنگیتر تھا۔ اِس نازُک اور کٹھن وقت میں مقدسہ مریم کا سب سے بڑا سہارا بنا۔ لوگ اِتنی تعداد میں بیت الحم شہر میں موجود تھے کہ لوگوں کے گھر اپنے رشتہ داروں کی وجہ سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ اِسی کار ن مقدسہ مریم اورمقدس یوسف کو کسی گھر میں بھی پنا ہ نہ مِلی کہ وہ رات وہاں گزار سکتے۔ لیکن قُدرت ہمیشہ اپنے بندوں پر مہربان ہوتی ہے۔ اِسی اثناہ میں ایک شریف شخص نے سردی کے موسم میں اُنہیں جانوروں کے اصطبل میںاور رات بسر کرنے کے لئے جگہ دے دی۔

مقدسہ مریم کا دردِ زہ بڑھتا جا رہا تھا۔ اِسی درد و تکلیف میں مقدسہ مریم نے اَمن کے شہزادے ، سلامتی کے رئیس اور منجیٔ دوعالم کو جنم دِیا۔

یسوع مسیح جو ساری اُمت کے لئے نجات دہندہ بن کر آیا تھا۔ اُس کی پیدائش کی بشارت بھی سب سے پہلے غریب چرواہوں کو جومیدان میں اپنی بھیڑوں کی گلہ بانی کر رہے تھے، فرشتے کی معرفت سُنائی گی کہ’’ڈرومت۔کیونکہ دیکھو۔مَیں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں۔ جو ساری اُمت کے لئے ہو گی۔کہ آج دائود کے شہر میں تُمہارے لئے ایک مُنجی پیدا ہوا۔وہ مسیح خداوند ہے۔ اور اِس کا نِشان تمہارے لئے یہ ہو گا ۔کہ تُم ایک ننھے بچے کو کپڑے میں لِپٹا اور چرنی میں پڑ ا ہوا پائوں گے ‘‘(مقدس لوقا 12-10:2) ۔

گڈریے اُسی وقت بیت الحم شہر میں شاہِ دوجہاں ،یسوع مسیح کو دیکھنے، اُسے سجدہ کرنے اور اُس کی پیدائش کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لئے آئے۔ یوں بیت الحم شہر میں سب سے پہلا کرسمس گڈریوں نے مقدسہ مریم،مقدس یوسف اور بچہ یسوع کے ساتھ مِل کر منایا۔

اِس پہلے کرسمس کے موقع پر نا صرف زمینی مخلو ق موجود تھی بلکہ آسمانی مخلوق بھی اِبنِ مریم کی پیدائش کی خوشیوں میں شریک تھی۔ آسمانی فرشتوں کا گروہ شادمانی اور خوشی کے گیت گاتا ہوا ظاہر ہو اتھا۔ آسمانی لشکر کی یہ جماعت خدا کی تعریف کرتی ہوئی کہتی تھی کہ ’’عالمِ بالا پر خُدا کی تمجید ہو۔

اور زمین پر نیک اِرادے کے آدمیوں کے لئے اَمن‘‘(مقدس لوقا 14:2)۔چرواہے مقدسہ مریم ،مقدس یوسف کے ساتھ بچہ یسوع کے جنم دِن کا جشن منا کر ،خُدا کی تمجید اور حمد کرتے ہوئے واپس لوٹ گئے۔ فرشتوں اور گڈریوں نے یسوع مسیح کے جنم دِن کو تاریخی اور یادگار بنا دِیا۔ اِسی وجہ سے آج مخلوقِ خدا ،اِبن خُدا کی پیدائش کی خوشیاں مناتی ہے۔

تاریخدانوںاور بائیبل مقدس کے مفکرین کے مطابق کہا جاتا ہے کہ یسوع مسیح کا جنم 4قبل اَز مسیح میںہیرودیس ہیرودیس کے دَورِ سلطنت میں ہوا۔ اورجب اُسے مشرق کے مجوسیوں کی معرفت ایک نئے بادشاہ کی پیدائش کی خبر مِلی ۔تو وہ اِس نئے بادشا ہ کی خبر پا کر اپنے دِل میں نہایت غمگین ہوا۔ اُسے اپنی بادشاہت کی فِکر ہونے لگی۔

اپنی سلطنت کو بچانے کے لئے اُس نے بیت الحم اور اُس کی سب سرحدوں کے اَندر اُن تمام بچوں کو جو دو برس یا ں اُس سے چھوٹے تھے ،قتل کروا دِیا۔لیکن فرشتے سے خواب میں آگاہی پا کر مقدس یوسف اورمقدسہ مریم بچہ یسوع کو ساتھ لے کر مصر میں چلے گے۔ یوں بچہ یسوع اِس وقتِ فرعون کے ظُلم و قہرسے محفوظ رہا۔

اور ہیرودیس کی وفات 4 قبل اَز مسیح میں ہوئی۔ ہیرودیس کی وفات کے بعد مقدسہ مریم اور مقدس یوسف بچہ یسوع کو لے کر ناصرت میں لوٹ آئے۔ تاریخدانوں کے مطابق ہیرودیس بادشاہ کی وفات کے سال میں ہی یسوع مسیح کا جنم بھی ہوا۔کیونکہ اِسی بادشاہ نے اپنے تخت کے کھو جانے کے ڈر سے دو برس یا اِس سے کم عمر کے بچوں کو قتل کرنے کا حُکم صاد رکیا تھا۔

25 دسمبر کو مِتھرا خدا (دیوتا) کا جنم دِن بھی ہے۔جس کی پیدائش کی شہرت پورے روم میں پہلی صدی میں بہت عام تھی۔ اُس زمانے میں روم مختلف خُدائوں کی عبادت کرنے اور پوری سلطنت میں اِن خُدائوں کا پرچار کرنے کے حوالے سے بہت جانا جاتا تھا۔ رومی سورج دیوتا کی بھی پوجا پاٹ کرتے تھے۔ اُن کے لئے سورج دیوتا سب سے بڑا خدا تھا۔

اور اِس کی عیدکا جشن پورا ہفتہ چلتا تھا ۔یعنی 21دسمبر سے لے کر 25دسمبر تک رومی اِس خدا کی عبادت کرتے ،اِس کے سامنے قربانیاں چڑھاتے ،ایک دوسرے کو تحا ئف دیتے اور خوب موج مستی اوررقص کرتے تھے۔ یہ سب کچھ 336خ۔س تک چلتا رہا۔ قسطنطین 306 خ۔ س میں روم کا حُکمران بنا ۔اور مسیحیت کو قبول کرنے کے بعد قسطینطین بادشاہ نے 313خ ۔س میں مسیحیت کو ایک مذہب کے طور پر قبول کیا۔اِس کے بعد 325خ۔ س میں تھیوڈو سیس بادشا ہ نے مسیحیت کو روم کا سرکاری مذہب قر ار دِیا ۔

اِس کے بعد پوپ جولئیس نے 25کو کرسمس منانے کا اعلان کیا۔ پہلے پہل یسو ع مسیح کے جنم دِن کو ’پیدائش کی عید‘(Feast of Nativity)کے نام سے منایا جانے لگا۔یسوع بادشاہ کی پیدائش کی عید 432میں مصر میں اور چھٹی صدی کے آخرتک پورے اِنگلینڈ میں منائی جانے لگی۔ اِ س کے بعد یسوع مسیح کی پیدائش کی عید کو کرسمس کے نام منایا جانے لگا۔کرسمس کا مطلب “Mass of Christ”ہے۔

مشرق کے کئی مجوسی مختلف ممالک سے ماہِ جنوری میں یسوع مسیح کو دیکھنے ، سجدہ کرنے اور اپنے تحائف یعنی سونا، لُوبان اور مُر پیش کرنے آئے تھے۔ اِسی مناسبت سے مشرقی مسیحی 6جنوری کو ہی یسوع مسیح کی پیدائش کی عید کو مجوسیوں کی عید کے ساتھ مناتے تھے۔ ابھی بھی چند ایک ممالک میں 6جنوری کو ہی کرسمس منایا جاتا ہے۔ جبکہ مغرب میں 25دسمبر کو کرسمس میں منایا جانے لگا۔

مسیحی جو کہ اِس بات پر اِیمان رکھتے ہیں کہ یسوع مسیح دُنیا کا نُور ہے۔اِسی طرح اِبتدائی مسیحی بھی یہی خیال رکھتے تھے کہ ہمارے لئے یسوع مسیح کا جنم دِن منانا لازماًہے۔چھٹی صدی کے بینڈکٹن راہب، مقدس اَگسٹین آف کینڑ بری نے پورے اِنگلینڈ میں کرسمس کے تہوار کو عام کیا اور مسیحیوں کو اِس تہوار کی اہمیت و فضلیت بیان کی۔

اِس کے بعد پوپ گریگری اعظم نے مقدس اَگسٹین آف کنیڑ بری کو روم بُلا لیا اور وہاں پر بھی آ پ نے کرسمس کی روحانیت پر بہت سا کام کیا۔ رومن کلینڈر کے مطابق کرسمس کی تاریخ 25دسمبر رکھی گی۔ اور پورے مغربی ممالک میں کرسمس کا مقدس تہوار 25دسمبر کو منایا جانے لگا۔

آج پوری دُنیا کے مسیحی 25دسمبر کو بادشاہوں کے بادشاہ،اِبنِ مریم، اَمن کے شہزادے اور سلامتی کے رئیس ،ہمارے خداوند یسوع مسیح کے جنم دِن کی عید مناتے ہیں۔ یہ تہوار تمام اِنسانوں کے لئے خوشیاں ، فضائل اور برکا ت لے کر آتا ہے۔ کرسمس کے موقع پرہر مخلوق نئے نئے رنگوں سے زیب تن ہوتی ہے۔ ہر طرف خوشی کا سماں ہوتا ہے۔

ہر چہر ہ شاداب اور نایاب نظر آتا ہے۔ ہر مسیحی یسوع مسیح کو خو ش آمد ید کہنے کے لئے رُوحانی اورجسمانی طور پر پُرجوش اور سرگرم نظر آتا ہے۔ مسیحی کرسمس کے اِس مقدس تہوار کے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ اپنی خوشی کا اِظہار مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔خالقِ دو جہاں اُن تما م لوگوں پر اپنی برکات اور فضائل نازل فرماتا ہے ،جو پور دِل سے اُس پر اِیمان لاتے ،اُس سے محبت کرتے اور اُس کو اپنے دِلوں میں آنے کی جگہ دیتے ہیں۔ اُس کے لئے اپنے دل و دماغ صاف کرتے اور اُسے خوش آمدید کہتے اور اُس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

آئیں ! خدا سے دُعائے مانگیں کہ وہ ہمیں اِس کرسمس کے مُبارک موقع پر اپنی برکاتِ رُوحانی، فضائل اور نعمتوں سے مالا مال کرے، ہماری خطائوں کو معاف کرے۔ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے رہنے کی توفیق عنایت کرے اورہمیں یہ فضل بخشے کہ ہم اُسے اپنے دِلوں کی چرنیوںمیں خوش آمدید کہہ سکیں۔ کہ مسیح خُداوند ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین۔
آپ سب کو عیدِ وِلادت المسیح کی خوشیاں بہت بہت مُبارک ہوں!

برادر عرفان کرائسٹ گِل او۔پی (کراچی)

Related Posts