نقاب پر مزید پابندیاں، اقوام عالم حجاب سے خوفزدہ کیوں؟

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

hijab

یورپ میں اس وقت حجاب پر پابندی ایک بار پھر موضوع بحث ہے، سوئٹزرلینڈ میں کل ایک ریفرنڈم ہونے جارہا ہے جس میں نقاب پر پابندی کے حوالے سے عوامی آراء لی جائیگی، اس حوالے سے سوئس براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ 49 فیصد لوگ پابندی کے حق میں جبکہ 47 فیصد لوگ مخالفت میں رائے دے سکتے ہیں۔

اس پابندی کیلئے سوئس پیپلز پارٹی کی جانب سے دباؤ ڈالا جارہا ہے،ان کے ایک پارلیمنٹرین ژان لوک ایڈور کا کہنا ہے کہ اس پابندی سے مرد اور خواتین کے مابین مساوات کو فروغ ملتا ہے اور اسلام کو بنیاد پرستی کے خلاف لڑنے میں مدد ملے گی۔

حجاب /نقاب
دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف ڈیزائنوں اور رنگوں کے حجاب پہننا پسند کرتی ہیں،کئی مسلم ممالک میں چادر خواتین کے لباس کا اہم حصہ ہوتا ہے، پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ اور کچھ دیگر علاقوں میں عورتیں گھروں سے باہر چادر پہنے بغیر نہیں نکلتیں۔ چادر زیادہ تر سفید یا کالے رنگ کی ہوتی ہے۔

نقاب عورت کے چہرے کو چھپا دیتا ہے اور صرف آنکھیں نظر آتی ہیں۔ کئی مرتبہ نقاب کا کپڑا اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ عورت کی چھاتی اور کمر بھی ڈھک جاتی ہے۔عبایا ایک کھلی طرز کا لباس ہے جس میں پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کے عبایا زیب تن کرتی ہیں۔ مختلف موقعوں پر مختلف طرح کے عبایا پہنے جاتے ہیں۔ ان میں دیدہ زیب کڑھائی والے اور سادے، دونوں طرح کے عبایا شامل ہیں۔

برقعہ بھی عبایا کی ہی ایک قسم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے کچھ حصوں میں ’ٹوپی برقعہ‘ پہنا جاتا ہے جس میں عورتیں آنکھوں کے سامنے والے کپڑے میں کچھ سوراخوں سے ہی باہر دیکھ سکتی ہیں تاہم بہت سی مسلمان عورتیں اپنے سر کو حجاب سے نہیں ڈھکتیں اور جدید ملبوسات پہننا پسند کرتی ہیں۔

حجاب کی تاریخ
عام طور پر حجاب کا لفظ نقاب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ،حجاب کا لفظ عربی زبان کے لفظ حجب سے نکلا ہے جسکے معنی ہیں کسی کو کسی چہرہ تک رسائی حاصل کرنے سے روکناتاہم آجکل حجاب کی اصطلاح صرف سر پر اسکارف لینے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

عموماًحجاب یا پردے کو مسلمانوں سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ اگر ہم تاریخ کا جاہ زہ لیں تو اس کا استعمال قدیم زمانے سے ہی چلا آرہا تھا۔پردے کا رواج آشوریوں، بابلیوں، میسوپوٹیمیا، سومریوں، اور قدیم یونان میں بھی پایا جاتا تھا۔ گھر سے باہر نکلتے وقت خواتین سر ڈھانپا کرتی تھیں ۔ سر کو کھلا چھوڑنا گناہ سمجھا جاتا تھا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والی عورت کو سخت سزا دی جاتی تھی۔

یہودی علماء کے نزدیک عورت کا سر ننگا کرنا ایسا ہی گویا اس نے اپنے جنسی اعضاء نمایاں کیے ہوں۔ یہودی شریعت میں نمازیں اور دعائیں کسی ننگے سر کی عورت کی موجودگی میں قبول نہیں ہوتیں کیوں کہ اسے عریانیت سمجھا جاتا تھا اور ننگے سر کے جرم کے پاداش میں جرمانہ تک کیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس فاحشاوّں اور طوائفوں کو یہودی معاشرے میں سر ڈھانپنے کی اجازت نہیں تھی تاکہ آزاد اور غلام عورت میں فرق کیا جاسکے۔

مذہب اور حجاب
دنیا کا کوئی بھی مذہب بے پردگی کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ تمام مذاہب میں خواتین کی عزت و حرمت کی واضح اہمیت دی جاتی ہے ،اسلام میں زیادہ تر علما کی رائے میں حجاب جو کہ عورت کے سر اور گردن کو ڈھکتا ہے، عورتوں کو پہننا لازمی ہے جبکہ مسیحیت میں بھی پردے کے حوالے سے بائبل میں احکامات واضح ہیں، بائبل میں یہ بھی مرقوم ہے کہ جو عورت بناسر ڈھکے دعا یانبوت وہ اپنے سر کو بےحُرمت کرتی ہےاور وہ سرمنڈھی کے برابر ہے۔

مسیحی مذہب میں بھی راہبائیں آج بھی عبایا نمالباس پہنتی اور سر ڈھانپ کررکھتی ہیں اور مسیحی کتب میں بھی ہم بابجا برقع یا پردہ کا ذکر ملتا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے حجاب اور نقاب کو ایک عرصہ سے مغربی دنیا میں مسلمانوں کی ثقافت کی علامت قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سیکولرزم کے دعویدار کسی مسلمان خاتون کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے سر یا منہ پر نقاب ڈالے ۔

حجاب پر پابندی
برقعے پر پابندی سب سے پہلے فرانس میں 2010ء میں متعارف کی گئی تھی۔ قانون کے مطابق، لوگوں کو برقع یا ایسا کوئی لباس عوامی جگہوں پر ڈانکنے کی اجازت نہیں ہے جس سے چہرہ چھپے فرانس ایسا پہلا یورپی ملک ہے جس نے حجاب پر پابندی عائد کی۔

اسپین میں 2010ء میں برشلونہ شہر کی بلدیہ عمارتوں میں برقع اور نقاب پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اسی طرح کی پابندیاں کاتالونیا کے کئی دیگر شہر عائد کر چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان میں سے ایک پابندی کو یہ کہ کر ہٹا دیا کہ اس سے مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہے۔

فرانس ہی کی طرح بلجیم نے ایک قانون متعارف کیا جس کے تحت برقع یا کسی شخص کی شناخت کو عوامی جگہ غیرواضح کرنے والے کسی بھی لباس پر 2012ء میں پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ قانون شکنوں پر 380 یورو جرمانہ اور سات دن تک کی قید کی گنجائش رکھی گئی تھی۔

اٹلی میں کوئی سرکاری قانون نہیں ہے جس کی رو سے برقعے پر پابندی لگے تاہم 1970ء کے دہشت گردی قانون کی رو سے عوامی جگہوں پر چہرے کو ڈھانکنا غیر قانونی ہے,2010ء میں شمالی اطالیہ کے شہر نووارا میں ایک مسلمان عورت کو حجاب پہننے کی وجہ سے 500 یورو کا جرمانہ دینا پڑا تھا۔

ستمبر 2013ء میں سوئٹزرلینڈ کے اطالوی زبان گو علاقے تیچینو نے عوامی علاقوں میں کسی بھی گروہ کی جانب سے نقاب پر پابندی لگانے کے حق میں ووٹ کیا جبکہ ڈنمارک میں2008ء سے ججوں پر عدالتی احاطے میں برقع یا اسی طرح کے مذہبی یا سیاسی نشانات پر پابندی عائد ہے جس میں صلیب، یہودی ٹوپی، پگڑی شامل ہیں۔

ترکی نے برقع اورپوشیدہ کرنے والوں نقابوں پر 1926ء میں پابندی عائد کر دی تھی تاہم 2013ء میں ترکی نے عورتوں کو مملکتی اداروں میں چہروں کو چھوڑکر سر اور بالوں کو ڈھاپنے والوں حجاب کی اجازت دے دی تھی۔

ہالینڈ نے کافی بحث کے بعد مئی 2015ء میں مکمل چہرے کے اسلامی حجاب کو سرکاری عمارتوں، اسکولوں، اسپتالوں اور عوامی حمل و نقل کی جگہوں پر ممنوع قرار دیا۔ یہ قانون حجاب پر مکمل پابندی عائد نہیں کرتا بلکہ مخصوص حالات میں جب لوگوں کا دیکھا جانا ضروری ہے تب پردہ داری کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ قانون شکنی کی صورت میں 285 پاؤنڈ اسٹرلنگ تک کا مساوی جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

روس کے قفقاز علاقے میں بڑھتے روسیوں اور مسلمانوں کے تصادم کے پیش نظر سٹاوروپول کے ارباب مجاز نے مملکت کے زیر انتظام اسکولوں میں اسکارف پر پابندی لگادی۔ اس فیصلے کی روسی سپریم کورٹ نے توثیق کی ہے۔چین کے صوبہ سنکیانگ دار الحکومت شہر اُرُومچی میں برقعے پر پابندی عائد ہے جبکہ سوویت یونین کی سابقہ جمہوریہ لٹویا نے عورتوں پر اسلامی طرز کے مکمل چہرے کے حجاب پر ملک بھر میں پابندی عائد کر رکھی ہے۔سری لنکا میں ایسٹر سنڈے کو ہونے والے خودکش حملوں کے بعد عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

جرمنی میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے نقاب غیر قانونی ہے۔ جرمنی کے ایوان زیریں نے ججوں، سرکاری ملازمین اور فوجیوں کے لیے جزوی پابندی کی منظوری دے رکھی ہے۔ جو خواتین نقاب کرتی ہیں انھیں بھی شناخت کے لیے اپنے چہرے سے نقاب ہٹانا ضروری ہے،آسٹریا میں سکول اور عدالت میں برقعے پر پابندی اکتوبر سنہ 2017 میں عائد کی گئی تھی۔

عالمی چارٹر
انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے عالمی چارٹر کی دفعہ 27میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر شخص کو قوم کی ثقافتی زندگی میں آزادانہ حصہ لینے کا حق ہے، مگر ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ کسی قوم کے ہر فرد کو قوم کی ثقافتی زندگی میں آزادانہ حصہ لینے کا حق تو دیا جا رہا ہے مگر کسی قوم کا ’’ثقافتی تشخص و امتیاز‘‘ تسلیم کرنے کے لیے مغربی دنیا تیار نہیں ہے۔

دنیا بھر کے مسلمانوں سے خاص طور پر تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے عقیدہ، مذہب اور ثقافت سے متعلق ہر چیز سے دستبردار ہو کر مغرب کی مسلط کردہ ثقافت کو بہرحال قبول کریں۔ گویا سیکولرازم کا معنی یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین و ثقافت سے دستبردار ہونے کا حق تو ہے مگر اس پر عمل کرنے اور اپنی سوسائٹی میں اپنے دین و ثقافت کا ماحول قائم رکھنے کا حق انہیں حاصل نہیں ہے۔ اور اس سے بڑی ستم ظریفی ہمارے لوکل دانشوروں کا یہ کہنا اور اس پر اصرار کرتے چلے جانا ہے کہ یہ کشمکش مذہبی اور ثقافتی نہیں ہے۔

اقوام عالم خوفزدہ کیوں؟
حجاب کی تاریخ بہت پرانی ہے اور ہر مذہب میں خواتین کوپردہ کرنے کی تلقین کی جاتی ہے لیکن یورپ میں حجاب کے حوالے سے مذہبی اقدار کو نشانہ بنایا جاتا ہے، یورپ میں اسلام مخالف اقدامات کی وجہ سے تیزی سے لوگ اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا میں امن و استحکام کی فضاء کو پروان چڑھانے کیلئے ادیان کے درمیان دوریاں کم کرکے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے اور حجاب پر پابندی جیسے اور داڑھی سے پریشان ہونے کے بجائے مذہب شعائر کا احترام یقینی بنایا جائے تاکہ دنیا میں حقیقی امن قائم ہوسکے۔

Related Posts