سینئر صحافی حامد میر نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ایک بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے سیاسی امور میں فوج اور اسٹیبلشمنٹ کا اثرورسوخ بڑھ گیا ہے۔
یہ کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب پاکستانی صحافی اور بلاگر اسد علی طور کو منگل کی رات کچھ نامعلوم افراد نے اسلام آباد میں ان کے اپارٹمنٹ میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا اور جان سے مارنے کی دھمکی دی۔
اس واقعے کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ کچھ صحافی فوج اور اداروں پر الزامات لگاتے ہیں ان کی مقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ بیرونی ممالک میں ان کو سیاسی پناہ مل جائے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور دیگر صحافیوں تنظیموں نے فواد چوہدری کے اس بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ “وفاقی وزیر کا یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت صحافیوں پر تشدد کے واقعات کی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں ہے۔”
سینئر اینکر پرسن حامد میر کا بیان
فواد چوہدری کے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کے سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ مجھ پر حملہ ہوا اور میں پاکستان میں ہی ہوں۔
سوشل میڈیا پر زیرِ گردش بیان میں معروف صحافی حامد میر نے کہا کہ مطیع اللہ جان پر ایک بار حملہ کیا گیا، ایک بار اغواء ہوئے، وہ بھی پاکستان میں ہیں۔ ابصار عالم بھی پاکستان میں موجود ہے۔ احمد درانی صرف پڑھنے کیلئے بیرونِ ملک گئے، انہوں نے خود کہا ہے کہ میں واپس بھی آؤں گا۔
ویڈیو بیان میں حامد میر نے کہا کہ ہم تو پاکستان کے عام شہری ہیں لیکن جو لوگ الزام لگا رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم وہ کس کی بات کر رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف ان کا چیف تھا۔ وہ آج کہاں ہے؟ وہ پاکستان سے بھاگ چکے ہیں۔ ان کے اکاؤنٹس چیک کریں کہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے۔
حامد میر نے کہا کہ مجھے بتائیں پاکستان کا وہ کون سا صحافی ہے جو بغیر نوکری کیے وطن سے باہر بیٹھا ہے اور اس کے اکاؤنٹ میں پیسے بھی آتے ہیں۔ ایسا کوئی صحافی نہیں۔ پہلے آپ اپنے گریبان میں جھانکیں اور پھر صحافیوں کا نام لیں۔ میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں کسی بھی چینل پر لائیو بحث کر لیں۔
انہوں نے کہا کہ میں ثابت کروں گا کہ آپ پاکستان میں بیٹھ کر اسرائیل، بھارت اور امریکا کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ آپ پاکستان کے فوجی اڈے غیر ملکیوں کو دیتے ہیں اور یہ کام آپ نے ایوب خان کے دور سے شروع کر رکھا ہے۔ آپ پاکستان کی سودے بازی کرتے ہیں، صحافی نہیں کرتے۔
اظہار رائے کی آزادی
میڈیا واچ ڈاگ فریڈم نیٹ ورک کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، گذشتہ ایک سال کے دوران صحافیوں پر حملوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صحافیوں کے خلاف تشدد کے کم از کم 91 مقدمات درج کیے گئے تھے – جس میں قتل ، حملہ ، سنسرشپ ، دھمکیوں اور قانونی مقدمات شامل ہیں۔
نتائج کے مطابق اسلام آباد اور پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر صحافی کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ صحافیوں پر تشدد کے 34 فیصد مقدمات کے ساتھ اسلام آباد سب سے زیادہ غیرمحفوظ علاقہ ہے۔
فورسز پر تنقید کا بل
گذشتہ ماہ اپریل میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے مسلح افواج کا جان بوجھ کر مذاق اڑانے والوں کے خلاف کارروائی کے لئے پاکستان پینل کوڈ اور ضابطہ اخلاق 1898 میں ترمیم کرنے کے بل کو منظوری دے دی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے ایک ایسے مجوزہ بل کی منظوری دی ہے جس کے تحت مسلح افواج اور اس کے اہلکاروں پر جانتے بوجھتے تنقید کرنے والوں کو دو سال تک قید اور پانچ لاکھ تک جرمانے کی سزاؤں کی تجویز دی گئی ہے۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین نے اس کی مخالفت کی اور جب مجوزہ بل پر ووٹنگ کروائی گئی تو اس کے حق اور مخالفت میں پانچ، پانچ ووٹ آئے۔ اس کے بعد چیئیرمین کمیٹی خرم نواز نے اس کے حق میں ووٹ دیا اور یوں یہ مجوزہ بل کثرت رائے کی بنیاد پر منظور کر لیا گیا۔
ایک سنگین منظرنامہ ؟
سوال کرنے کی آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک کے دفاع میں فوج کے کردار پر شک کیا جارہا ہے۔ اس سے لوگوں کو معاملات میں ریاست کے کسی ایسے ادارے کی مبینہ مداخلت سے متعلق سوال کرنے کا ان کا آئینی حق مل جاتا ہے جو اس کے آئینی مینڈیٹ سے بالاتر ہیں۔
حامد میر کے تبصروں نے ایک طرف ، ایک ’جمہوری‘ پاکستان میں صحافیوں کے لئے خطرناک صورتحال پیدا کردی ہے، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ صحافیوں سے ناانصافی روا رکھی جارہی ہے۔ تاہم دوسری جانب پریس فریڈم کی آڑ میں ذاتی حملے ناقابل قبول ہیں۔
صحافیوں پر تشدد کے واقعات جمہوری حکومت کی آنکھوں کے سامنے ہورہے ہیں۔ حکومت ایسے قوانین بنانے میں کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے جس سے تنقید کرنے والوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے؟