ہراسگی کے معاملات سامنے آنے پر جامعہ ہری پور 7مارچ تک بند کر دی گئی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہراسگی کے معاملات سامنے آنے پر جامعہ ہری پور 7مارچ تک بند کر دی گئی
ہراسگی کے معاملات سامنے آنے پر جامعہ ہری پور 7مارچ تک بند کر دی گئی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: خیبر پختونخواہ کے ضلع ہری پور میں قائم یونیورسٹی آف ہری پور میں مبینہ طور پر طالبات کو ہراساں کر نیکا معاملہ سامنے آنے پر انتظامیہ نے اساتذہ کی کمی کو بنیاد بنا کر یونیورسٹی کو7مارچ تک بند کردیا ہے۔

یونیورسٹی بند کرنے کا مقصد ہراسانی کے معاملات کو چھپانا، طلبہ و طالبات کو سول سوسائٹی، یونیورسٹی میں آنے والے اداروں کے افسران اور پولیس سے دور رکھنا ہے،وائس چانسلر نے انکوائریوں پر اثر انداز ہونے والے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شاہ مسعود خان کو ایک بار پھر قائم مقام رجسٹرار تعینات کردیا ہے۔

ایم ایم نیوز کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق اسسٹنٹ رجسٹرار اسٹیبلشمنٹ نے ایک لیٹر No.2(2)UH/Reg/Estb/2022/180 لکھا جس میں بتایا گیا ہے کہ وائس چانسلر کی بنائی گئی ایڈمنسٹریشن مینجمنٹ کمیٹی کا اجلاس 25 فروری کو منعقد ہوا تھا جس میں  فیصلہ کیا گیا ہے کہ سیمسٹر بہار برائے 2002 اب 28 فروری کے بجائے 7 مارچ سے شروع ہو گا، اس لئے ناگزیر حالات کی وجہ سے یونیورسٹی 7 مارچ تک بند رہے گی۔

اس کے ساتھ ہی اسسٹنٹ رجسٹرار اسٹیبلشمنٹ محمد ریاض نے ایک اور لیٹر F.No2(2)UH/Reg/Estb/2022/179 میں لکھا ہے کہ خیبر پختونخواہ یونیورسٹیز ایکٹ 2012 کی ترمیم 2016 کی سیکشن 11(5)9(a) میں درج اختیارات کے تحت متعلقہ اتھارٹی نے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شاہ مسعود خان کو شعب باغبانی کے چیئرمین کے ساتھ ساتھ رجسٹرار کے اضافی اختیارات بھی دے دیئے ہیں۔ وہ تین ماہ تک اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔

اسی لیٹر میں ایک نوٹ لکھا گیا ہے کہ مفادات کے تصادم سے بچنے کیلئے سلیکشن بورڈ میں پروفیسر شپ کا سلیکشن نہیں کیا جائے گا کیوں کہ ڈاکٹر شاہ مسعود خان خود بھی سلیکشن بورڈامیدوار برائے پروفیسر اور سلیکشن بورڈ میں سیکرٹری کی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔

معلوم ہو اہے کہ ایم ایم نیوز میں خبر شائع ہونے کے بعد ضلعی پولیس آفیسر (ڈی پی او)کیپٹن (ر)کاشف عباسی نے جامعہ ہری پور کے وائس چانسلر ڈاکٹرانوار الحسن گیلانی سے رابطہ کرکے جامعہ میں گزشتہ 3بر س کے دوران پیش آنے والے ہراسانی کے کیسز کی تفصیلات طلب کیں، جس پر یونیورسٹی کے اسسٹنٹ رجسٹرار نے گمراہ کن معلومات جمع کرائی ہیں، جب کہ حالیہ واقعہ میں کشمیر کی طالبہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں غلط معلومات جمع کرائی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق کشمیر کی طالبہ کی جانب سے دی گئی درخواست کو پولیس افسر کے ساتھ شیئر ہی نہیں کیا گیا،جس میں بچی کو پشاور لے جانے، تین روز تک وہاں رکھنے، نشہ آور دوا پلانے اور خود کشی کی دھمکی دینے سے لیکر اس کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کو چھپا کر صرف اس کی انکوائری کو ختم کرنے کیلئے دی گئی درخواست جمع کرائی گئی ہے۔

جب کہ اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں ایک اور ہراسانی کے واقعہ کو بھی چھپا دیا گیا ہے، جس میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر مطیع اللہ خان کے بارے میں طالبات کو ہراساں کرنے کی شکایات موصول ہوئی تھیں،جس کے بارے میں بھی خود وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی نے کہا تھا کہ مطیع اللہ خان خود استعفیٰ دیدیں بصورت دیگرانکوائری کمیٹی کے ذریعے انہیں ہٹا دیں گے جس کے بعد مبینہ طورپر ایسوسی ایٹ پروفیسر شاہ مسعود خان نے مطیع اللہ خان کو بچالیا ہے۔

کشمیر ی طالبہ نے کو پشاور لے جانے والی صابرہ نامی طالبہ ڈاکٹر امجد خان کے ڈیپارٹمنٹ پبلک ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں ساتویں سمسٹر میں پڑھ رہی ہے، جوڈاکٹر امجد خان کے خاندان سے بھی رابطے میں ہے، ڈاکٹر امجد خان کا بھائی مردان میں فارمیسی کا ڈاکٹر ہے جس سے لڑکی کا علاج کرائے جانے کی اطلاعات ہیں، جس کی وجہ سے سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ صابرہ، ڈاکٹر امجد خان، اورمتاثرہ طالبہ کے ساتھ ساتھ کمیٹی کے تینوں ممبران کے موبائل اور رجسٹرار، وائس چانسلر کے موبائل کا فارنزک کرایا جائے، جس سے حقائق سامنے آجائیں گے۔

اس حوالے سے جامعہ ہری پور کے قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر شاہ مسعود خان یوسف زئی سے رابطہ کیا گیا تو ان کو کہنا تھا مجھے لگ بھگ دو برس میں  3تین ماہ کے لئے 7 سے 8بار قائم مقام رجسٹرار بنایا گیا ہے،ہم سے ڈی پی او نے ہراسانی کی تفصیلات مانگی ہیں  اور وہ ہم نے ان کو دیدی ہیں۔

مزید پڑھیں: جامعہ ہری پور میں کشمیر کی طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی، انکوائری کیوں مکمل نہ ہوئی؟

ہراسمنٹ کمیٹی سے قبل وائس چانسلر صوابدیدی اختیارات کے ذریعے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بناتے ہیں جس میں ہراسانی کی شکایات کو سنا جاتا ہے اگر وہ اس قابل ہو تو اس کے بعد ہراسمنٹ کمیٹی کو معاملہ بھیجا جاتا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ سمسٹر تاخیر کا شکار ہوتے رہتے ہیں اورڈاکٹر امجد کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے،مگر آج کل امتحانات ہو چکے ہیں اس لئے اساتذہ بغیر کام کے یونیورسٹی نہیں آتے۔

Related Posts