بلوچستان کے تیزی سے ترقی کرتے صنعتی شہر گوادر میں حق دو گوادر کو تحریک سے تعلق رکھنے والے مظاہرین گوادر کے عوام کے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی میڈیا کے مطابق صوبائی حکومت کے حق دو تحریک سے مذاکرات ناکام رہے تاہم یہ مکمل حقیقت نہیں۔
حق دو تحریک کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاک چین راہداری (سی پیک) کیلئے کام کرنے والے چینی شہری جمعرات تک ملک چھوڑ دیں۔ دو ماہ ہونے کو آئے ہیں کہ مظاہرین نے گوادر پورٹ کے داخلی راستے پر دھرنا دے رکھا ہے جس سے گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے بند ہو کر رہ گئی۔
گوادر میں حق دو تحریک نے بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ پاکستانی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح مظاہرین سے مذاکرات کیے جائیں۔ راقم الحروف کی معلومات کے مطابق مذاکرات کامیابی کے راستے پر گامزن ہوتے نظر آرہے ہیں، اگر حکومت اس پر صحیح توجہ دے۔
اچھی بات یہ ہے کہ گوادر کے عوام کیلئے حقوق کا مطالبہ کرنے والا مظاہرین کا گروہ پرتشدد مظاہروں کی طرف نہیں جارہا اور کچھ ہفتوں پر مشتمل یہ احتجاج مکمل طور پر پر امن ہے اور جو مطالبات وہ کر رہے ہیں، ان میں سے کچھ سی ایس آر(کمیونٹی سوشل رسپانسیبِلٹی) کے تحت آتے ہیں جو کہ کافی حد تک جائز مطالبات ہیں۔
بلوچستان میں صدیوں سے پنپنے والا ماہی گیری کا پیشہ توجہ کا متقاضی ہے اور جن لوگوں کی روزی روٹی ہی ماہی گیری سے وابستہ ہے، ان کے حقوق کا احترام تو حکومت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہئے۔ میرے ذرائع کے مطابق ماہی گیروں کو ان کے حقوق کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے لیکن اس پر مکمل عمل نہیں ہوسکا۔
حکومت نے ڈیپ سی ٹرالرز پر امبارگو کا نفاذ کیا جو مذاکرات کا ایک پہلو ہے جبکہ دوسرا پہلو چیکنگ اور حفاظتی انتظامات سے تعلق رکھتا ہے اور جب تک کہ بلوچستان میں بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) کہلانے والی کالعدم تنظیم کی سرگرمیوں کو روک نہیں دیاجاتا، یہ پہلو تشنہ ہی رہے گا۔
صوبے کی سکیورٹی کا یہ ایک ایسا پہلو ہے جس کا بظاہر حق دو گوادر کو تحریک سے تعلق نظر نہیں آتا، تاہم اس کی اپنی اہمیت ہے۔ حکومت کی تشویش کی وجہ یہ ہے کہ بی ایل اے جیسے جنگجو گروہ گوادر میں جاری احتجاج اور عوامی اجتماع کا فائدہ اٹھا کر کسی ناخوشگوار واقعے کا سبب نہ بن جائیں۔
تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا خطرہ جو عالمی میڈیا کو بھی نظر آرہا ہے، اور ان خطرات کے سبب پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، اسے پاکستان نے ریڈ لائن قرار دیا ہے جبکہ سی پیک میں ایس سی او (شنگھائی تعاون تنظیم) جس میں بھارت بھی شامل ہے اور آگے چل کر بھارتی انٹرسٹ بھی اس سے منسلک ہوجائے گا۔
شنگھائی تعاون تنظیم نے اپنے چارٹر میں بہت وضاحت سے بیان کیا ہے کہ رسد گاہوں کو تمام رکن ممالک کیلئے کھولا جائے تاکہ سی پیک جیسے پراجیکٹ سے نہ صرف مقامی افراد کی خوشحالی و ترقی ہو جس سے خطے کے لوگ اور خاص طور پر پاکستان فیضیاب ہوگا۔ ضروری ہے کہ سی پیک میں سی ایس آر کا خاص خیال رکھا جائے کیونکہ ایسے چھوٹے معاملات کو نظر انداز کرنے سے سی پیک جیسے میگا پراجیکٹ کونقصان پہنچ سکتا ہے۔
سی پیک کے منصوبے پر کام کرنے والی تمام کمپنیوں نے سی ایس آر پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی ہے کہ جیسے ہی پراجیکٹ آگے بڑھے گا، سی ایس آر میں بھی اضافہ کیا جائے گا اور مظاہرے میں شریک حق دو گوادر کو تحریک کے افراد بھی قانون کی پاسداری کے پابند ہیں۔
مثال کے طور پر ایران سے لین دین جو ان کا مطالبہ ہے، اس پر عالمی پابندی کے باعث پاکستان ایران سے تجارت نہیں کرسکتا۔ کم و بیش 500 چینی شہری گوادر میں موجود ہیں اور تحریک کا حصہ بنے مظاہرین نے انہیں ہی ملک سے نکل جانے کیلئے ڈیڈ لائن دے دی۔
میرا تجزیہ کہتا ہے کہ چینی شہری ڈیڈ لائن کے تحت جمعرات کو یا اسی سال یہ ملک چھوڑ کر جانے والے نہیں ہیں۔ مظاہرین اور حکومت کے مابین جاری مذاکرات میں پیشرفت ہوئی ہے۔ حکومت مظاہرین کے زیادہ تر مطالبات کو تسلیم کرے گی اور چینی شہریوں کو یہاں رہنے کی اجازت اسی طرح حاصل رہے گی۔
حق دو گوادر کو تحریک ایک حساس معاملہ ہے اور حکومت اور حکومتی اداروں کو اس سے نہایت دور اندیشی سے نبرد آزما ہونا چاہئے ورنہ نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی عناصر بھی جو سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، وہ ایسے مظاہروں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا کی خارجہ پالیسی کی اوّلین ترجیح چین کو محدود کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ کا ایک کلیدی حصہ ہے اور عالمی سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں کسی بھی قسم کی سست روی کا فائدہ چین کو محدود کرنے کی اسکیم کو دوام بخش سکتا ہے۔