سخت لاک ڈاؤن کے باعث پاکستان سمیت عالمی سطح پر معاشی سرگرمیوں پر بد ترین اثرات مرتب ہوئے جبکہ 75 فیصد لیبر فورس کورونا وائرس نامی وباء کے ہاتھوں بری طرح متاثر ہوئی۔
پاکستان میں 1کروڑ 80 لاکھ ملازمین کو ملازمت سے فارغ کیے جانے کے خدشات درپیش ہیں جو ملکی معیشت کیلئے ایک بڑا جھٹکا ثابت ہوسکتا ہے جبکہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ بد سے بد ترین ہوتا جارہا ہے۔ باقی ماندہ لیبر جس میں چھوٹے کاروباری حضرات، ریسٹورنٹ عملہ اور دیہاڑی دار افراد شامل ہیں، لاک ڈاؤن ہٹائے جانے کے منتظر ہیں۔
بالآخر حکومت نے بڑھتے ہوئے معاشی نقصانات اور غربت کی روک تھام کیلئے لاک ڈاؤن جزوی طور پر ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے اور مزید یہ کہ حکومت نے چھوٹی مارکیٹس اور چھوٹی گلیوں میں قائم شاپس کیلئے محدود اوقات میں کاروبار کھولنے کا عندیہ دے دیا ہے جس کیلئے سماجی فاصلہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب یہ اعلان بھی کیا گیا کہ اگر کورونا وائرس کی صورتحال بد تر ہوتی دکھائی دی اور وائرس کی دوسری لہر آئی تو لاک ڈاؤن سخت سے سخت تر کردیا جائے گا جبکہ سائنسدانوں اور ڈاکٹرز کو خوف ہے کہ کورونا وائرس 22 کروڑ آبادی والے ملک میں مزید تیزی سے پھیلے گا جو پاکستان جیسے ملک کے نظامِ صحت کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔
عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن اٹھانے کے بعد24 گھنٹوں کے دوران 1 ہزار 764 کورونا وائرس کیسز رجسٹر ہوئے جبکہ 30 افراد جاں بحق ہوئے جو پاکستان میں سب سے زیادہ نقصان قرار دیا گیا ہے۔ بلا شبہ حکومت نے چھوٹی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی ہے تاہم تعلیمی ادارے 15 جولائی تک بند رکھے جائیں گے جبکہ آن لائن تعلیمی خدمات جاری رہیں گی۔
ورلڈ بینک نے 500 ارب ڈالر کے قرضے جاری کیے ہیں تاکہ سماجی اشاریوں کو تقویت بہم پہنچائی جائے اور وائرس کے باعث ہونے والے خسارے پر قابو پایا جاسکے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے 1 اعشاریہ 39 ارب ڈالر پاکستان کیلئے بطور قرض دئیے تاکہ پاکستان بھی کورونا وائرس کے مسائل سے باہر آئے۔
کورونا وائرس کے باعث مختصر مدتی معاشی نمو کم رہنے کی توقع ہے اور غیر یقینی صورتحال عروج پر نظر آتی ہے۔ پاکستان کیلئے غیر ملکی قرضے اور مالی امداد کا حصول اہم ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی امداد ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلئے بیک اپ کا کام کرے گی جس سے حکومت کو وائرس کے خلاف حکمتِ عملی ترتیب دینے اور معاشی مسائل حل کرنے میں آسانی ہوگی۔
وائرس نے پاکستانی معیشت کو بری طرح متاثر کیا جبکہ ملکی و بین الاقوامی معاشی سرگرمیوں کیلئے مشترکہ پالیسیاں معاشی نمو کے توازن کو بری طرح خراب کر رہی ہیں۔
اس لیے پاکستان کو معاشی سرگرمیوں کا توازن بحال کرنے کیلئے ضروری اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ کورونا وائرس کے ردِ عمل میں حکومتِ پاکستان نے فیصلہ کن اقدامات اٹھائے جن کے تحت کورونا وائرس کی روک تھام عمل میں لائی گئی۔ ملک کے دیہاڑی دار طبقے کو غریب ترین سمجھتے ہوئے حکومت نے ان کیلئے مالی اعانت کا اعلان کیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ان کیلئے بر وقت پیکیج ترتیب دیا تاکہ لیکوئڈیٹی اور قرضوں کی صورتحال میں بہتری لائی جاسکے اورمعاشی استحکام کی طرف قدم بڑھائے جاسکیں۔ اسٹیٹ بینک نے ری فنانسنگ سروسز اور شرحِ سود میں کمی کی جس سے چھوٹے کاروباری طبقے کو فائدہ ہوگا۔
ملک کو قرضوں کی ادائیگی کیلئے بھی واضح حکمتِ عملی اختیار کرنا ہوگی کیونکہ اگر کورونا وائرس کیسز خرابی کی طرف گئے تو معاشی بحران پر قابو پانا زیادہ اہم ہوگا۔
مرکزی بینک نے اعلان کیا ہے کہ نئے کرنسی نوٹ چھاپ کر کورونا وائرس زدہ پرانی کرنسی سے تبدیل کردئیے جائیں گے تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے اور کیش کی ضروریات کو بھی پورا کیاجاسکے۔ معیشت اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے مطابق نئی کرنسی سے مہنگائی بڑھے گی کیونکہ اس سے اجناس کی قیمت بڑھ جائے گی۔
اگر مہنگائی زیادہ بڑھی تو اجناس کی قیمتوں میں بار بار اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آئے گا جبکہ اداروں کو قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے باعث مزید ادائیگیاں کرنا پڑیں گی۔ جرمنی میں مہنگائی کے بحران کے باعث قیمتیں اتنی تیزی سے تبدیل ہوئیں کہ لوگوں کو ایک ہی دن میں دو بار ادائیگی کرنا پڑی۔
جب مہنگائی بڑھتی ہے تو کمپنیاں تفتیش کرنے میں ہچکچاتی ہیں جس کے نتائج پاکستانی معیشت کو بھگتنے پڑیں گے۔ مہنگائی کی زائد شرح کے باعث حکومت کیلئے بانڈز بیچنا بھی مشکل ہوگا جبکہ لوگ بانڈز کو سرمایہ کاری کیلئے محفوظ سمجھتے ہوئے ان کی خریداری کیلئے پیسہ خرچ کریں گے۔
ملکی قرضے کے پیشِ نظر اس کی ادائیگی کیلئے نئے کرنسی نوٹ چھاپنا مہنگائی کو دعوت دینے کے مترادف ہے جس سے بانڈز کی قیمتیں بھی گر جائیں گی۔ اس کے بعد لوگ بانڈز خریدنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے جس کی وجہ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ہوگا اور مہنگائی اپنے عروج پر جا پہنچے گی۔
مہنگائی کی بلند سطح، قرضوں اور سرمایہ کاروں کوخریدوفروخت میں درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے متبادل حل یہ ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی کو سامنے لایا جائے۔ سافٹ یا ڈیجیٹل کرنسی ادائیگی کا آسان تر اور محفوظ ترین ذریعہ ہے جس میں منتقلی کی لاگت بھی کم ہوتی ہے جو کسی بھی وقت ادا کی جاسکتی ہے۔
سافٹ یا ڈیجیٹل کرنسی کسی بھی وائرس سے متاثر نہیں ہوتی۔ پاکستان میں اگر حکومت ڈیجیٹل کرنسی شروع کردے تو اس سے بدعنوانی میں بھی کمی آئے گی۔ مثال کے طور پر پٹرول کی آفیشل قیمت 81 روپے 58 پیسے ہے مگر ہمیں 82 روپے فی لیٹر ادا کرنا پڑتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم 42 پیسے فی لیٹر زیادہ ادا کرتے ہیں۔
پاکستان میں اوسطاً 4 لاکھ 50 ہزار بیرل پٹرول یومیہ کے حساب سے استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ 3 کروڑ 51 ہزار روپے کی کرپشن ہر روز ہوتی ہے۔ اگر ہم سالانہ کا حسب لگائیں تو 36 کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن ہوتی ہے۔ یہی صورتحال دیگر معاشی سرگرمیوں میں روا رکھی جاتی ہے، مثال کے طور پر گیسولین انرجی اور اجناس وغیرہ۔ بہت سے ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک سافٹ کرنسی کو ملکی لین دین کیلئے استعمال کر رہے ہیں کیونکہ اس سے پرنٹنگ کی لاگت اور مہنگائی کے خدشات کم ہو رہے ہیں۔
( چینی شہر ینگ لِنگ میں واقع نارتھ ویسٹ اے اینڈ ایف یونیورسٹی سے منصور احمد کونڈھر نے بھی اِس مضمون کی تحریر میں تعاون کیا ہے)