اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے کا فیصلہ لائق تحسین ہے،میاں زاہد حسین

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
نوے ارب ڈالرکی درآمدات کرنے والی معیشت کبھی مستحکم نہیں ہوسکتی،میاں زاہد حسین
نوے ارب ڈالرکی درآمدات کرنے والی معیشت کبھی مستحکم نہیں ہوسکتی،میاں زاہد حسین

کراچی: ایف پی سی سی آئی کے نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو آزادی دینے کا فیصلہ لائق تحسین ہے جس کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

حکومت کا کردار کم کرنے سے اس اہم ادارہ میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہو گا اور یہ آزادی سے اپنا کام کر سکے گا۔ مجوزہ قانونی ترمیم کے خلاف شراکت داروں کے تحفظات دور کرنے کے لئے آزاد اور خود مختار مرکزی بینک کی با معنی و با مقصد نگرانی کا نظام بھی وضع کیا جائے۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ منتخب نمائندوں کی نگرانی کے بغیر سنگین مسائل جنم لے سکتے ہیں اس لئے قانون میں مناسب ترمیم کی ضرورت ہے کیونکہ بینک کی جانب سے پارلیمنٹ میں ایک سالانہ رپورٹ جمع کروانا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔

بینک کے سر براہ کی تعیناتی، سبکد وشی اورکاکردگی کی نگرانی کے لئے پارلیمنٹرینز اور اقتصادی ماہرین کی کمیٹی بنانے پر غور کیا جائے۔ مرکزی بینک نجی کاروبار نہیں ہے بلکہ ایک قومی ادارہ ہے اس لئے اسے اپنے اقدامات کے پارلیمنٹ کو جوابدہ ہونا چائیے۔

اگر مجوزہ ترمیم موجودہ شکل میں منظور ہو گئی تو مستقبل کی حکومتیں اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لئے میرٹ کو پامال کرتے ہوئے کمزور افراد کو اس ادارے میں تعینات کریں گی جس سے یہ ادارہ اپنا کردار ادا نہیں کر پا ئے گا اس لئے اس کا راستہ روکنے کی ضرورت ہے جس کا حل نگرانی کا موثر میکانزم ہے۔

مزید پڑھیں:ایف پی سی سی آئی کی درآمدی سامان کی کلیئرنس میں بہتری کیلئے کوششوں کی تعریف

اقتصادی اداروں کو با اختیار بنانا ضروری ہے تاکہ انکی کارکردگی بہتر بنائی جا سکے مگر اس کے لئے قومی اتفاق رائے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

میاں زاہد حسین نے مذیدکہا کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لئے جلدی کا مظاہرہ کر رہی ہے جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرعت میں کئے گئے فیصلے بعد میں پشیمانی کا باعث بنتے ہیں اس لئے اس مسئلے پر تفصیلی قومی بحث بھی ضروری ہے۔

موجودہ اقتصادی پالیسیاں طویل المیعاد نہیں بلکہ وقتی ہیں جن میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور یہ ایڈہاک پالیسیاں ملکی معیشت کو اس وقت تک بہتر نہیں کر سکتیں جب تک بنیادی تبدیلی کاعمل شروع نہ کیا جائے۔