حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وفاقی حکومت کی معاشی ٹیم کے سربراہ شوکت ترین نے اس بات کی تردید کی ہے کہ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں، شوکت ترین کے مطابق پاکستان میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں، جو بالکل بے بنیاد ہے۔

اس سے قبل یہ اطلاع دی گئی تھی کہ پاکستان اور آئی ایم ایف ایک بار پھر اسٹاف لیول کے معاہدے تک پہنچنے میں ناکام ہو گئے ہیں کیونکہ میکرو اکنامک فریم ورک پر اختلافات اور معیشت کے مستقبل کے روڈ میپ پر غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی پیشگی شرط منظور کرلی تھی اس کے باوجود مذاکرات ناکام ہوئے۔

حکمران جماعت پی ٹی آئی کے پاس 6 ارب ڈالر کے قرضے کے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی درخواست کے ساتھ آئی ایم ایف کے پاس واپس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے تجویز کردہ غیر مقبول اقدامات کو متعارف کرانے سے گریزاں تھی۔ پروگرام کی سخت شرائط کو بیٹھتی ہوئی معیشت کو اوپر لانے کے حکومتی منصوبوں میں بڑی رکاوٹ کے طور پر بھی دیکھا گیا۔

حکومت کی معاشی ٹیم کے سربراہ شوکت ترین نے صحافیوں کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ حکومت ایک جامع اور پائیدار معاشی نمو کے لیے سخت محنت کر رہی ہے جس سے معاشرے کے تمام طبقات کو فائدہ پہنچے۔ شوکت ترین کے مطابق حتمی بات چیت جاری ہے اور مذاکرات کامیابی کے ساتھ ختم ہوں گے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آئی ایم ایف پاکستان سے مزید کام کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے، مشیر نے کہا کہ جب کوئی قرض کے لیے درخواست دیتا ہے تو ہر بینکر تقاضہ کرتا ہے،شوکت ترین کے مطابق ایم ڈی آئی ایم ایف سے بات چیت کافی مفید ثابت ہوئی ہے، قوم کو مذاکرات کے حوالے سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔

تاہم یہ چیز سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس سے پاکستانی عوام پر مزید بوجھ بڑھے گا۔ بجلی کی قیمتیں مزید بڑھانے کے علاوہ آئی ایم ایف اسلام آباد کو آمدنی بڑھانے اور ٹیکس لگانے پر مجبور کرے گا تاکہ وہ اپنے محصولات کے ہدف کو پورا کرے، ہر قسم کی سبسڈی ختم کرے یا نمایاں طور پر کم کرے اور شرح سود میں اضافہ کرے۔

نہ تو آئی ایم ایف اور نہ ہی حکومت نے وضاحت کی ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں مخصوص آمدنی والے طبقے پر کتنا گہرا اثر پڑے گا، اور ٹیکس دہندگان اس سے کتنا متاثر ہوں گے، معیشت پر کیا اثرات ہوں گے اور لوگوں کی زندگیاں بچ پائیں گی، لہٰذا، حکومت اور آئی ایم ایف دونوں کو اصلاحاتی ایجنڈے کے لیے ایک نیا نقطہ نظر وضع کرنے کی ضرورت ہے جو ملک میں بننے والے معاشی حالات کو صحیح سمت لے جائے۔

Related Posts