بجٹ کا نام سامنے آتے ہی جہاں سرکاری ملازمین میں تنخواہ و پنشن میں اضافے اور دیگرمراعات کی امیدیں جاگ اٹھتی ہیں وہیں عوام کے دلوں میں نئے ٹیکسز کا خوف گھر کرلیتا ہے۔ موجودہ حکومت گزشتہ 3 سال سے عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے اور اب آئندہ ماہ منی بجٹ لانے کا اعلان کردیا ہے جس سے عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
وفاقی بجٹ
مشیر خزانہ شوکت ترین نے رواں سال جون میں مالی سال 22-2021 کیلئے 8 کھرب 487 ارب روپے کا بجٹ پیش کیاجبکہ مالی سال 21-2020 کے بجٹ کا حجم 7 کھرب 136 ارب روپے تھا۔
وفاقی بجٹ میں تقریباً تمام صنعتوں کے لئے چھوٹ اور مراعات کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ نئے کاروباروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ آٹوموبائل سیکٹر کےلیے مراعات کا اعلان کرتے ہوئے مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے چھوٹی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح کو کم کردیا ہے۔
محصولات اور ترقیاتی اقدامات
مالی سال 2021-22کے بجٹ میں وفاقی حکومت نے سرکلر قرضوں کو کم کرنے کے لیے ٹیکس محصولات بڑھانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور ہاؤسنگ سیکٹرز کو خصوصی رعایت دینے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ فیصلہ بھی ہوا کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے ترسیلات زر میں اضافہ کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
وفاقی عوامی ترقیاتی بجٹ پروگرام کو 630 ارب روپے سے بڑھا کر 900 ارب روپے کردیا گیا جو پچھلے مالی سال کی نسبت 40 فیصد زیادہ ہے۔ مشینری اور خام مال کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ آئی ٹی کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے اسپیشل ٹیکنالوجی زون قائم کیا جائےگا۔آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے 91 ارب روپے مختص کیے گئے جبکہ تنخواہ دار اور پنشنرز کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
عوام کیلئے ریلیف
رواں مالی سال کے بجٹ میں پیسٹ ، مکھن اور پاؤڈر دودھ کی درآمد پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کم کردی گئی ہے ۔850 سی سی یا اس سے کم سی سی کی مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں کو ویلیو ایڈڈ ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہوگا جبکہ بڑی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے 12اعشاریہ 5 فیصد کردی گئی ہے۔
کیا وفاقی بجٹ 22-2021 ترقی پر مبنی ہے؟
وفاقی بجٹ کے اسٹاک مارکیٹ پر اثرات
ایف پی سی سی آئی نے سپریم کورٹ سے بجٹ کانو ٹس لینے کا مطالبہ کر دیا