کورونا وائرس کو اب بین الاقوامی وبا قرار دے دیا گیا ہے کیونکہ کورونا وائرس اب دنیا کے 6 براعظموں اور 120 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے۔ دنیا بھر کی معیشت، اسٹاک مارکیٹس، تیل کی قیمتیں، تجارت، سیاحت، کھیل اور ہر قسم کے کاروبار اِس مہلک بیماری سے متاثر ہو رہے ہیں۔
گزشتہ تین ماہ سے کورونا وائرس نے عوامی ہیلتھ ایمرجنسی سے لے کر ایک متوسط بیماری اور اب ایک عالمی وبا تک قدم بہ قدم آگے کی طرف سفر کیا، اور اب اس کی کوئی ویکسین جلد متوقع نہیں جس سے سماجی، سیاسی اور معاشی سطح پر اس وبا کے خلاف کاوشیں محدود رہیں گی۔ دنیا میں اِس سے قبل آخری وبا ایچ ون این ون فلو کا مسئلہ تھا جسے سوائن فلو بھی کہا جاتا ہے جس نے دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں کو ہلاک کردیا۔
کورونا وائرس چین کے شہر وہان سے شروع ہوا، تاہم اس نے یورپ میں بھی تباہی پھیلائی۔ اٹلی میں 1 کروڑ 60 لاکھ افراد کرفیو جیسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں صرف ہنگامی صورتحال میں کام کرنے یا صرف کھانا ہی خریدنے کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ سیاحتی مقامات جیسا کہ ملان اور وینس ایک طرح سے دنیا سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ کھیلوں کی سرگرمیاں کورونا وائرس کے باعث الگ متاثر ہو رہی ہیں۔ کھیل بند اسٹیڈیمز میں منعقد ہوتے ہیں یا پھر انہیں منسوخ کیا جارہا ہے جبکہ ہر روز طرزِ زندگی، عادات اور اطوار میں وائرس کے باعث تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔
وائرس کو وبا اُس وقت قرار دیا گیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ پریشان کن اعلان کیا کہ وہ 30 دن کے لیے یورپ سے ہر طرح کے سفر پر پابندی لگا رہے ہیں کیونکہ اس سے کورونا وائرس کے مزید پھیلنے کا خدشہ ہے۔ اِس اچانک سفری پابندی سے یورپی عوام اشتعال کا شکار ہوئے اور انہوں نے غم و غصے کا اظہار بھی کیا۔ یورپین کمیشن نے اعلان کیا کہ اس فیصلے سے انہیں کوئی آگہی نہیں دی گئی اور انہیں اِس سفری پابندی سے معاشی طور پر منفی اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
یہی خبر اسٹاک مارکیٹس تک پہنچی جس سے مارکیٹس میں مندی چھا گئی اور وائرس پر حقیقی صورتحال کا علم نہ ہونے کے باعث تیل کی قیمتیں بھی پھسلنے لگیں۔ ایکویٹی مارکیٹس میں حصص (شیئرز) کی قیمتیں بغیر کسی سہارے کے نیچے گرتی چلی گئیں جس سے عالمی معیشت کی ترقی رُک گئی۔ بے شک امریکی صدر ٹرمپ نے کچھ ریلیف کے اقدامات کی پیشکش بھی کی تاہم یہ بات سرمایہ کاروں کے لیے غیر تسلی بخش تھی۔
عالمی سطح پر کورونا وائرس کے باعث بڑھتی ہوئی بے چینی کے پیچھے یہ بات بھی نظر آئی کہ بطور انسان ہم مختلف وباؤں اور آفتوں کے آگے کتنے بے بس ہیں۔ یہ دیکھنا ایک اہم تجربہ ہوگا کہ کیا عوام بالآخر اس معاملے میں سائنسدانوں کی بات سنتے نظر آئیں۔ بیماری کے خلاف بنیادی حفاظتی اقدامات دراصل روزمرہ زندگی کے معمولات کا حصہ دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ اپنے ہاتھ اچھی طرح دھونا، حفظانِ صحت کے اصول اپنانا اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا۔
سائنسدانوں کے حوالے سے یہاں یہ کہنا ضروری دکھائی دیتا ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس سے ہونے والے شدید نقصانات سے آگاہ ہونے کے باوجود سائنسدانوں اور طبی ماہرین کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے جس پر عالمی رہنما بھی مثبت ردِ عمل دینے میں ہمیشہ ناکام نظر آئے۔ سیاسی سرگرمیوں اور اقدامات کے حوالے سے ہماری بے بسی بے نقاب ہوچکی ہے۔ تمام تر غلط معلومات، جعلی خبروں اور افواہوں کے ساتھ یہ زیادہ مشکل ہوسکتا ہے لیکن ہمیں سائنسدانوں کی بات کا بھی احترام کرنا چاہئے جبکہ رہنماؤں کو درست، بر وقت اور مؤثر طریقے سے اپنی بات عوام تک پہنچانی چاہئے۔