انتخابات، چوتھی باری اور عوام کی کسمپرسی

مقبول خبریں

کالمز

Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
اسرائیل امریکا گٹھ جوڑ: ریاستی دہشت گردی کا عالمی ایجنڈا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے وطن واپسی کا ٹکٹ کٹوا لیا اور سننے میں یہ آرہا ہے کہ 21 اکتوبر کی شام کو لاہور ائیرپورٹ پر لینڈ کریں گے جس کے متعلق سابق وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم  کے منصب پر فائز ہوں گے  جو کوئی نئی بات نہیں ہے۔

کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے یہ بیانیہ کہ ان کا لیڈر ہی ملک کا وزیر اعظم ، کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ یا کسی ریاست کا صدر بنے گا، ایک عمومی بیانیہ ہوتا ہے جسے جاری کرتے ہوئےپاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت بشمول پی ٹی آئی، ن لیگ اورپیپلز پارٹی جنہیں وفاق میں حکومت چلانے کا تجربہ تک حاصل ہے،حقائق کو ملحوظِ خاطر رکھنے میں اپنے فائدے کی بجائے نقصان گردانتی ہے۔

اگر ہم آج سے 5سال پہلے کی بات کریں تو تحریکِ انصاف نے موروثی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں عمران خان کو وزیرا عظم منتخب کیے جانے کا دعویٰ کیا اور یہی دعویٰ دیگر پارٹیاں بھی کر رہی تھیں یعنی پی پی پی اور ن لیگ کہ ان کا منتخب کردہ لیڈر  ہی اپنے وزیر اعظم بننے کی باری لے گا، لیکن ان دونوں بڑی پارٹیوں کے دعووں کے برعکس کامیاب پی ٹی آئی ہوئی، تاہم پی ٹی آئی سمیت کسی جماعت نے حقائق پر دھیان نہیں دیا۔

حقائق یہ تھے کہ ملک کا وزیر عظم اسے بننا تھا جسے عوام ووٹ دے کر منتخب کرتے، اس لیے اس کی کوئی پیشگوئی کی ہی نہیں جاسکتی تھی، عوام کی رائے مختلف حلقوں میں عوامی نمائندوں کی گزشتہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یا دیگر وجوہات کے باعث مختلف ہوسکتی ہے اور یہی ہوا کہ ملک کا ایک وزیر اعظم تو بنا اور وزارتِ عظمیٰ کے گلچھرے اڑائے لیکن اسے ہمیشہ شکایت رہی کہ کابینہ تو مل گئی، اختیارات نہیں ملے۔

آج بھی ملک کی صورتحال ناقابلِ بیان ہے کہ جس میں سیاسی رہنما نہ جانے کن خوابوں اور خیالوں میں کھوئے ہیں ، ملک کا متوسط طبقہ غربت اور غریب کسمپرسی، بدحالی اور فاقہ کشی  کا شکار ہوچکا ہے۔ ایسے میں تذبذب اور ہچکچاہٹ  لازمی امر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں بادی النظر میں الیکشن سر پر آجانے کے باوجود اپنا کوئی واضح بیانیہ تشکیل دینے میں کنفیوز نظر آتی ہیں۔

سیاسی چالبازیوں کو نہ سمجھنے والے قارئین کیلئے یہ عرض کردوں کہ بیانیہ سیاسی جماعت کی انتخابی مہم کی جان ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اسے الیکشن جیتنا ہوتا  ہے مثلاً روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ یا جاگ پنجابی جاگ  اور مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں جیسی باتوں کے ذریعے علاقائی عصبیتوں یا مذہبی جذبات کو ابھارنے کی کوشش  بھی کی جاتی ہے تاکہ لوگ قومی مفادات کو بھول کر صرف اور صرف ان پارٹیوں کو ووٹ دیں جنہیں آج تک اپنے مفادات کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا۔

بیانیہ تشکیل نہ دئیے جانے کی سب سے بڑی مثال اس وقت پی پی پی اور ن لیگ ہیں  جن میں سے ن لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر رکھ لیا ،  جب اس سے بات بنتی دکھائی نہ دی تو پیچھے ہٹ گئے اور پھر جب وقت بدلتے دیکھا تو پھر عسکری قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کو لتاڑنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ن لیگ کی مرکزی قیادت کا یہ بیان کہ فیض آباد دھرنے میں ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے میں سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید اصرار کرکے شریک ہوئے، اسی سلسلے کی کڑی ہوسکتا ہے، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ن لیگی قیادت کے بہت سے بیانا ت بظاہر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جاتے ہیں مگر اسی ن لیگ کے سربراہ کار کی ڈگی میں چھپ کر بھی اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ کے پاس پہنچتے رہے ہیں۔

پھر اگر ہم پی پی پی کی بات کریں تون لیگ کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو کر خارجہ امور اور دیگر وزارتیں حاصل کرکے اپنا زیادہ تر وقت اپنے مفادات کے تحفظ اور غیر ملکی دوروں میں گزارنے کے بعد عوام سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ صرف بر وقت انتخابات کے مطالبے پر ان کو ووٹ دے دیں گے، پی پی پی  کی مرکزی قیادت نے تو یہ بھی کہا کہ عوام کے تمام تر مسائل کا حل پی پی پی کے پاس ہے، اگر حل ہے تو پیش بھی کریں۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ سیاسی بحران، امن وامان اور معاشی مسائل کیسے حل ہوں گے اور وہ کون کرے گا؟

کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کا فقید المثال استقبال ہوگا  جو مینارِ پاکستان پر کیا جائے گا جہاں نوازشریف قوم سے خطاب بھی کریں گے۔ جلسے جلوسوں میں عوام کی بڑی تعداد کو بلانے کیلئے موٹر سائیکل کا لالچ دینے کی افواہ بھی سامنے آئی ہے جو غلط بھی ہوسکتی ہے اور درست بھی، کیونکہ ن لیگی قیادت نواز شریف کے استقبال کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہے۔ شہباز شریف نے اپنی قیادت کو باقی کام چھوڑ کر صرف نواز شریف کے استقبال کیلئے تیاریوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت کی ہے۔

تکنیکی و قانونی  اعتبار سے نوا ز شریف کو وطن واپسی پر پہلے سرنڈر کرنا چاہئے، محسوس ایسا ہوتا ہے کہ ن لیگی قیادت نواز شریف کے سرنڈر کیلئے تیار بھی ہے اور قانونی ٹیم سابق وزیر اعظم کی حفاظتی ضمانت کیلئے کام کر رہی ہے تاہم قیادت کا اصرار یہ ہے کہ نواز شریف کا پہلے استقبال کیا جائے جو فقید المثال بھی ہونا چاہئے اور پھر نواز شریف جو تقریر کریں ، اس پر کسی سیاسی معجزے کی توقع بھی کی جارہی ہے۔

سیاسی جماعتیں عوام کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے زیادہ نہیں سمجھتیں اور الیکشن کے موقعے پر بھی انہیں ہانک کر پولنگ اسٹیشن تک لے جا کر اپنی مرضی سے ووٹ ڈلوا لیے جاتے ہیں۔ لوگ  صرف کھانے پینے کی اشیا اور معمولی اجرت پر سیاسی پارٹی کے منتظمین کی فراہم کردہ بسوں میں بیٹھ کرجلسہ گاہ تک پہنچا دئیے جاتے ہیں اور ایسا کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ وہ اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل کس غیر سنجیدہ قیادت کے ہاتھوں میں سونپ رہے ہیں جو انہیں حقِ رائے دہی بھی دینے کیلئے تیار نہیں بلکہ معمولی رقم کے عوض اقتدار کی مسند پر براجمان ہونا چاہتی ہے۔

ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ اس کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت ہے اور جولائی 2022ء سے جون 2023ء کے دوران سیلاب اور ادائیگیوں کے عد م توازن کی وجہ سے ملکی جی ڈی پی کی شرحِ نمو صرف 0.3فیصد رہی۔ مالی سال 23-2022ء میں پاکستان کو 5.2ٹریلین روپے کی ڈیٹ سروسنگ (Debt Servicing) کرنا تھی جو وفاقی حکومت کے محصولات سے بھی زیادہ ہے۔ جولائی 2023ء میں پاکستان نے خداخدا کرکے آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کا معاہدہ کرلیا تاہم اس کے نتیجے میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ، اس کی مثال گزشتہ 76برسوں میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ ضروری ہے کہ ملک کے ان اہم مسائل پر توجہ دی جائے۔

کوئی بعید نہیں کہ نواز شریف بھی اسی طریقہ کار پر چلتے ہوئے چوتھی بار ملک کے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوجائیں جبکہ صدرِ مملکت بننے کا خواب دیکھنے والے مولانا فضل الرحمان یہ کہہ چکے کہ وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے کیونکہ ان کےکئی رہنما  دہشت گردی کے باعث شہید ہوگئے ہیں  جبکہ الیکشن سخت سردی میں ہوگا اور پہاڑی علاقوں کے لوگوں کیلئے ووٹ ڈالنا ناممکن سی بات ہوگی اورساتھ ہی سکیورٹی کے حالات بھی ناگفتہ بہ ہیں۔دوسری جانب  نواز شریف بھی الیکشن کیلئے زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتے ، صرف پیپلز پارٹی ہی انتخابات کیلئے آواز اٹھاتی دکھائی دیتی ہے لیکن جس کے پیچھے فلسفہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر الیکشن دیر سے ہوئے تو پیپلز پارٹی کمزور اور جی ڈی اے مضبوط ہوسکتی ہے۔

Related Posts