تھیلیسیمیا کے خلاف امید کی کرن، ماہرین جین تھراپی کے ذریعے خون بنانے میں کامیاب

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

تھیلیسیمیا کے خلاف امید کی کرن، ماہرین جین تھراپی کے ذریعے خون بنانے میں کامیاب
تھیلیسیمیا کے خلاف امید کی کرن، ماہرین جین تھراپی کے ذریعے خون بنانے میں کامیاب

واشنگٹن: امریکی ماہرین نے تھیلیسیمیا کا شکار بچوں کے جسم میں جین تھراپی کے ذریعے قدرتی خون بنانے کا عمل کامیابی سے مکمل کر لیا ہے جس سے موذی مرض کا شکار اور خون بنانے کی صلاحیت کھو بیٹھنے والے بچوں کیلئے امید کی نئی کرن پیدا ہوئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق امریکی ماہرین نے تھیلیسیمیا کا شکار بچوں کے اسٹیم سیلز لے کر ایک تبدیل شدہ وائرس اور تھیلیسیمیا سے متاثرہ خراب جین کی جگہ اسی جین کی درست نقول کا استعمال کیا اور کیموتھراپی سے مماثل طریقۂ علاج سے گزارتے ہوئے خون کی افزائش شروع کی۔

یہ بھی پڑھیں:

کیا آپ جانتے ہیں کہ سونگھنے کی حس سے ذائقے کی حس کا کتنا گہرا تعلق ہے؟

تھیلیسیمیا کا شکار بچوں کو بیماری سے نجات دلانے میں نئی جین تھراپی کے تحت ایک ماہ سے 5 ہفتوں تک کا وقت لگ گیا جس کے بعد اگلے 30 روز میں بیماری کا شکار افراد میں خون بنانے کی صلاحیت پیدا ہونے لگی تاہم جین تھراپی کے ضمنی اثرات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا۔

ریسرچ ٹیم میں این اینڈ رابرٹ ایچ لوری چلڈرن ہسپتال شکاگو کی ڈاکٹر جینیفر شنائڈر بھی شامل تھیں۔ ڈاکٹر جینیفر کا کہنا ہے کہ 10 سال تک کی جانے والی تحقیق کا مقصد انتقالِ خون پر مجبور مریضوں کا جین تھراپی کے ذریعے علاج کرنا تھا۔ بعد ازاں تحقیقی نتائج شائع کیے گئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ 13ماہ سے 4 سال تک کئی مریضوں کا بار بار معائنہ ہوا، خون میں تھیلیسیمیا کے خطرات کو نوٹ کیا گیا۔ 4 مریضوں کو شدید سائیڈ افیکٹس کا سامنا کرنا پڑا جبکہ کچھ افراد خون کے ذرات میں کمی، منہ میں چھالے اور بخار جیسی علامات کا شکار ہوئے۔

واضح رہے کہ تھیلیسیمیا کا شکار بچوں کے جسم میں خون بنانے کی صلاحیت ناپید ہوجاتی ہے جس کے باعث انہیں بار بار خون کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ علاج مہنگا ہونے کے باعث ہر سال بے شمار بچے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ جین تھراپی کے ذریعے علاج کی امید پیدا ہوئی ہے۔

عموماً تھیلیسیمیا کے مریض بار بار خون لگانے سے مختلف تکالیف کا شکار رہتے ہیں۔ جین تھراپی سے گزرنے والے مریضوں کی عمریں 4 سے 34 سال کے درمیان ہیں جبکہ 12 سال سے کم عمر رکھنے والے 90 فیصد متاثرہ بچوں کو ماہانہ بنیاد پر انتقالِ خون کی ضرورت پیش نہیں آتی۔  

نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع کیے گئے تحقیقی نتائج کے مطابق جین تھراپی فیز تھری کلینیکل ٹرائل سے گزر چکی ہے۔ 90 فیصد مریض تھراپی کے کئی سال بعد بھی تازہ خون کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جو مکمل طور پر تندرست سمجھے جاتے ہیں۔

Related Posts