کسی ایک فرد کی غیر متزلزل لگن اور انتھک کوششیں پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہیں۔
اپنے سنگلاخ پہاڑوں اور دلکش مناظر کے ساتھ گلگت بلتستان جو کچھ عرصہ قبل کبھی بنیادی ضروریات ِ زندگی کی بھی کمی سے دوچار ہوا کرتا تھا ، وہاں حالیہ برسوں میں ایسے اقدامات کا ایک سلسلہ دیکھنے میں آیا ہے جو گلگت بلتستان کو ایک امید افزاء خطے میں تبدیل کر رہے ہیں، جو پاکستان میں دیگر صوبوں کیلئے مشعلِ راہ سے کم ثابت نہ ہوگا۔ یہ بات تعجب خیز ہوگی اگر اسی دشوار گزار خطے سے مستقبل میں کوئی بل گیٹس جیسا ہونہار شخص پیدا نہ ہو۔
گلگت بلتستان کے اپنے حالیہ دورے کے دوران مجھے ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا جو میرے 44 سالہ عسکری اور سفارتی کیرئیر کے دوران بھی ایسا جذبہ دیکھنے کو نہ مل سکا جہاں وطنِ عزیز میں ایسے رہنما اصول اپنائے جا رہے ہیں جن کے تحت روشن چہرے ، تروتازہ دماغ کے ساتھ علم کے حصول میں شب و روز مصروف ہیں۔ اس خطے میں عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار شخصیت محی الدین وانی نے چیف سیکریٹری جی بی کے منصب پر فائز ہوتے ہی اس علاقے کیلئے ایک خواب دیکھا جسے شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے ابتدا ہی سے جت گئے،مسلسل انتھک کوششیں اور سخت محنت کی ، نتیجتاً چند ہی مہینوں میں گلگت بلتستان کی بدلتی ہوئی تقدیر کے اشارے ملنا شروع ہو گئے جوطلبہ و طالبات کے چہروں پر سجی مسکان کی صورت میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
گلگت بلتستان پاکستان کا وہ خوبصورت خطہ ہے جس میں تعلیم اور تربیت میں جدت کے رجحانات کو فروغ دینے کیلئے اہم منصوبے بنائے گئے بلکہ ان منصوبوں کو فعال طور پر نافذ کرتے ہوئے عملی جامہ بھی پہنانا شروع کردیا گیا۔ یہاں تک کہ اسکول کے بچوں کو بھی غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ 21ویں صدی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کمپیوٹر لیبز اور آئی ٹی پارک بھی قائم کیے گئے تاکہ بچوں کو ضروری علم و ہنر سے آراستہ کیا جا سکے۔ محدود وسائل کے باوجود جی بی کے اس مردِ مومن نے کمپیوٹر کی تعلیم سے لے کر مصنوعی ذہانت تک پر مشتمل تعلیمی اسکیمیں بنانے کے لیے پاکستانی اور عالمی اداروں کے تعاون سے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ ان اقدامات نے گلگت بلتستان کے بچوں کی ذہنی نشوونما کو ان بلندیوں تک پہنچا دیا ہے جن کا ماضی کے دور میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا جس سے یہاں کے عوام الناس کے خواب خوشگوار حقیقت میں بدلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
اس قلیل عرصے میں ہی ان طلبہ و طالبات کی پہلی کھیپ یعنی تقریباً 700 بچوں نے کامیابی کے ساتھ اپنے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات مکمل کر لیے ہیں اور وہ مختلف مسابقتی امتحانات کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، چاہے وہ بری فوج، بحریہ، میڈیکل کالجز یا دیگر باوقار اداروں کی جانب سے لیے جائیں۔ طلبہ وطالبات کو ایسے امتحانات کیلئے تیار کرنے کی غرض سے چیف سیکریٹری نے KIBS نامی ایک خصوصی ادارے کی خدمات حاصل کیں ۔ KIBS کا مقصد طلبہ و طالبات میں مسابقتی امتحانی صلاحیتوں کو نکھارنا ہے جبکہ جی بی حکومت تندہی سے اپنے بنیادی مقاصد پر عمل پیرا ہے جس میں غربت کا خاتمہ ، بھوک کا تدارک ، اچھی صحت ، معیاری تعلیم، صنفی مساوات، صاف پانی اور نکاسئ آب، صاف و شفاف توانائی ، معاشی شرحِ نمو، مستحکم شہریت و معاشرت، ماحولیاتی ایکشن اوربچوں کی نشوونما شامل ہیں۔ بچوں کا کلاس میں طبی معائنہ کیا جاتا ہےاور خوراک فراہم کی جاتی ہے تاکہ بچوں کو کسی بھی قسم کے طبی مسائل سے نمٹنا نہ پڑے۔ یہاں تک کہ بچوں کی آنکھیں بھی ٹیسٹ کی جاتی ہیں۔ یہ سارے انتظامات چیف سیکریٹری گلگت بلتستان نے اپنے ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے محکمۂ صحت کی شراکت داری کے ساتھ کیے جو تعلیم کے میدان میں انقلابی ترقی کیلئے مثالی پیشرفت ہے، جس کو پاکستان کے سرکاری اسکولوں میں اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
ان جامع تعلیمی اصلاحات کی بدولت گلگت بلتستان میں اسکولوں کے داخلوں میں 25 فیصد کا غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ غیر حاضری کا مسئلہ جو کبھی اسکول کے بچوں میں واضح طور پر بڑھا ہوا محسوس ہوتا تھا، اب تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، بچوں کی حاضری کی شرح 95 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ غذائیت سے بھرپور کھانوں نے بچوں کے باڈی ماس انڈیکس (BMI) اور مجموعی صحت کو بہتر بنایا ۔ مزید یہ کہ وہ بچے جو پہلے ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لحاظ سے پیچھے رہ گئے تھے، اب ان چیلنجز پر قابو پا چکے ہیں۔
گزشتہ برس نومبر میں گلگت بلتستان میں دہشت گردی کا ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جب دہشت گردوں نے خواتین کی تعلیم کے خلاف ردِ عمل دیتے ہوئے دیامر کے چند گرلز اسکولوں کو نذرِ آتش کر دیا ۔ تاہم ان دہشت گردوں کو یہ خبر نہ تھی کہ گلگت بلتستان انتظامیہ ان اسکولوں کو محض پانچ دنوں میں دوبارہ تعمیر کر کےطالبات کی تعلیم کا سلسلہ بحال کردے گی۔ جی بی انتظامیہ نے اس ضمن میں غیر متزلزل جرأت اور عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا اور ان اسکولوں کو زندگی بخش رنگوں اور روشنیوں سے مزین کیا گیا ، اس دوران وہاں کے رہائشی افراد نے اپنی بچیوں کی تعلیم کو پروان چڑھانے کیلئے گلگت بلتستان انتظامیہ کے ساتھ بڑھ چڑھ کر تعاون کیا تاکہ وہ دہشت گرد جنہوں نے اسکول جلائے تھے، یہ جان سکیں کہ حکومت میں کتنا ہمت و حوصلہ ہے اور علم حاصل کرنے والی بچیوں کی عزم و ہمت بھی پست نہ ہوسکے۔
نتیجتاً ان اسکولوں کے آس پاس بسنے والے جو دیامر کے فرسودہ خیالات کے حامل لوگ تھے، ان کی سوچ میں انقلاب پیدا ہوا اور انہوں نے اپنی بچیوں کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ کردیا اور ماضی قریب میں جن بچیوں کو اسکول جانا نصیب نہیں ہوتا تھا، وہ بھی اسکولوں میں نظر آنے لگیں۔
حکومت نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چلاس جیسے دُور اُفتادہ علاقے میں سب جیل کو خالی کرکے گرلز اسکول میں تبدیل کردیا ، یہاں تک کہ کمشنر کا زیر تعمیر بنگلہ بھی خواتین کے ہاسٹل کیلئے وقف کیا گیا ۔ چیف سیکریٹری کا یہ ماننا ہے کہ اسکولوں میں رنگ و روغن کے ذہنوں پر مرتب ہونے والے اثرات سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے تعمیراتی ڈیزائن کو اس انداز سے تشکیل دیا جائے کہ اس میں بچے اپنے گھر کے مقابلے میں زیادہ ذہنی سکون کے ساتھ علم کے حصول میں دلچسپی لے سکیں ۔ایسا ماحول تعلیم کو آگے بڑھانے کیلئے درست اور کارگر ثابت ہوتا نظر آرہا ہے اور بچوں کا دل اب گھروں کے مقابلے میں اسکول میں زیادہ لگنے لگا ہے۔
موجودہ دور میں جب لائبریریوں کی اہمیت اور افادیت کم ہوتی جا رہی ہے، خاص طور پر تعلیمی اداروں میں، اس دوران گلگت بلتستان حکومت لائبریریوں کی اہمیت کو بحال کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ تمام اسکولوں میں لائبریریاں قائم کی جا رہی ہیں، جنہیں دلکش فن تعمیر اور متحرک رنگوں سے احتیاط سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ لائبریریوں میں طرزِ تعمیر اور رنگوں کے امتزاج سے ایسا نفسیاتی ماحول پیدا کیا گیا جس سے بچوں کو لائبریری سے ایک لگن پیدا ہونا ایک لازمی امر تھا جس کا پاکستان کے دیگر علاقوں کے سرکاری اسکولوں میں تصور نہیں ہے، ان اسکولوں کا تعلیمی معیار اس حد تک بلند ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں سے نکال کر سرکاری اسکولوں میں داخل کرانے لگے ہیں۔
قدرتی آفات کے باوجود مقامی حکومت کا تعلیم کے لیے عزم غیر متزلزل ہے۔ حکومت اور یونیسکو کی مشترکہ کوششوں سے گزشتہ سال سیلاب سے تباہ ہونے والے 20 سے زائد اسکولوں کی فوری تعمیر نو کی گئی ہے۔ نتیجتاً متاثرہ علاقے میں تعلیم کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ مزید برآں گلگت بلتستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقے میں 56 اضافی سمارٹ سکول بنا کر تعلیم کے میدان میں ایک جدت پیدا کردی ہے ، جبکہ اسمارٹ اسکولز کمپیوٹر لیبز سمیت تمام جدید ترین سہولیات سے آراستہ ہیں۔
خاص طور پر سائنس وٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے شعبوں میں اساتذہ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ اس توجہ کے پیچھے کی وجہ بہت سادہ ہے کہ طلبہ و طالبات کو دورِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری آلاتِ مہارت سے لیس کیا جا رہا ہے۔ تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گلگت بلتستان حکومت نے آغا خان یونیورسٹی کے پروفیشنل ڈویلپمنٹ سینٹر کا تعاون حاصل کیا اور اپنے ہی تعلیمی بجٹ میں رہتے ہوئے ان سے کنسورشیم بنوا کر اس سے تقریباً 1000 تعلیمی ماہرین کی ایک نئی کھیپ کو ٹریننگ دینے کا منصوبہ شروع ہوچکا ہے۔
چیف سیکریٹری محی الدین وانی کی قیادت میں گلگت بلتستان حکومت کی دور اندیش کاوشیں خطے کے تعلیمی منظرنامے میں جدت پیدا کر رہی ہیں۔ بنیادی انفراسٹرکچر کی ترقی، غذائیت کی فراہمی، جامع تربیتی پروگراموں اور اساتذہ کو بااختیار بنانے پر مشتمل ایک جامع حکومتی پالیسی کے ساتھ، گلگت بلتستان ایک روشن اور زیادہ خوشحال مستقبل کی جانب ایک شاندار سفر کا آغاز کرچکا ہے۔ جیسے جیسے یہاں کے باسیوں کے خواب حقیقت پر مبنی کامیابیوں میں بدل رہے ہیں، گلگت بلتستان کے طلبہ و طالبات اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں جو پاکستان کے مستقبل کی تشکیل میں رہنما کاکردار ادا کریں گے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر دنیا میں جزا و سزا کا نظام نہ ہو تو کائنات کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ اسی طرح اساتذۂ کرام کو صحیح تربیت اوررہنما ئی فراہم نہ کی جائے اور ان کی فلاح و بہبود کے بارے میں نہ سوچا جائے تو نسل در نسل اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ضروری ہے کہ اساتذ ہ کرام کو ان کا حق ملے اور ان کی پذیرائی کی جائے۔ گلگت بلتستان میں پذیرائی کا ایک فارمولا چیف سیکریٹری نے یہ نکالا کہ صفِ اوّل کے پانچ اساتذہ کرام کو سال میں 3 تنخواہیں اضافی دی جاتی ہیں جبکہ بقیہ کو ان کے درجوں کے اعتبار سے انعامات سے نوازا جاتا ہے جس کا اثر ان کی کام میں لگن اور دلچسپی سے ماپا جاسکتا ہے۔ یوں طلبہ و طالبات کو اساتذہ کی طرف سے بھرپور توجہ ملتی ہے۔ طلبہ و طالبات کی تعداد کے تناسب سے اساتذہ کی جو کمی تھی، گلگت بلتستان حکومت نے اسی تناسب سے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے تحت امتحان دلوا کر صرف 3 ماہ کی قلیل مدت میں تقریباً 700 اساتذہ کرام کو بھرتی کیا ۔ اس قلیل مدت میں شاید ہی ملک کا کوئی صوبہ ہو جو اتنی بڑی تعداد میں ایف پی ایس سی سے امتحان دلوا کر اساتذہ کرام کو آج تک بھرتی کرسکا ہو۔
دیگر صوبوں میں تعلیم، صحت اور دیگر تمام شعبہ جات میں بدعنوانی ایک عام رواج ہے تاہم پاکستان کے اس خوبصورت پہاڑی علاقے جی بی میں شاذ و نادر ہی بدعنوانی کی شکایت نظر آتی ہے۔ حکومت نے تمام اساتذہ کو خودمختار بنا دیا ہے کہ وہ اپنے انتظامی اور مالیاتی فیصلے خود کرسکتے ہیں۔ ایسے فیصلوں کے تحت اساتذہ کو اپنے اسکولوں کی فلاح و بہبود کیلئے جو فنڈز ملتے ہیں ، بجائے اس کے کہ اس کا انتظام گلگت بلتستان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لے، یہاں کے پرنسپل اور ہیڈ ٹیچرز اپنے مالی معاملات کو خود دیکھنے کے مجاز ہیں ، جس کےاختیارات انہیں چیف سیکریٹری نے منتقل کیے ہیں۔ اس سے اسکولوں میں بر وقت فیصلے کرتے ہوئے بہت تیزی سے تعلیمی و دیگر مسائل حل کیے جاتے ہیں ۔
آج کل دنیا میں مصنوعی ذہانت کی دھوم مچی ہوئی ہے، ساتھ ہی ساتھ بلاک چین ٹیکنالوجی کی بھی مانگ بڑھ چکی ہے۔حیرت انگیز تعجب کی بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ثانوی درجے کی تعلیم دینے کے دوران ہی طلبہ و طالبات کو ان جدید ترین ٹیکنالوجیز سے روشنا س کرایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آئندہ برسوں میں یہ بچے اتنے ہونہار ہوجائیں گے کہ مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور بلاک چین ٹیکنالوجی کے میدان میں دیگر ممالک کے سامنے اپنی قابلِ قدر صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ ان نئے شعبہ جات میں سرٹیفکیٹ کورسز بھی متعارف کرائے جاچکے ہیں اور اسکولوں میں روبوٹک لیب بھی قائم کر دی گئی ہے جس کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت فنڈز مہیا کیے گئے ہیں۔ ان ٹیکنالوجیز اور سرٹیفکیشن کے باعث یہ بچے نہ صرف دنیا بھر میں اپنی پہچان کروانے بلکہ گھر بیٹھے بھی اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کیلئے باعزت روزگار کمانے کا وسیلہ بن سکیں گے،ایسی مثال پاکستان کے کسی اور صوبے میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ مجھے قوی امید ہے کہ پاکستان کے دیگر صوبے بھی آنے والے برسوں میں گلگت بلتستان کے تعلیمی ماڈل کی تقلید کریں گے اور پاکستان کی نئی نسل کو وہ راہ دکھائیں گے کہ نئی نسل بے راہروی کی بجائے اپنا روشن مستقبل تعمیر کرنے پر توجہ دے سکے۔ اسمارٹ اسکولوں کی تعمیر کا مقصد ٹیکنالوجی کی بنیاد پر تعلیم ہے۔ گلگت بلتستان کے تقریباً 200 اسکولوں میں سائنس ٹیکنالوجی ایجوکیشن منیجمنٹ سسٹم کی بنیاد رکھ دی گئی ہے ۔ ان تمام جدید تعلیمی اصولوں کو حاصل کرنے کیلئے جی بی میں ایک اور نظام بھی متعارف کرایا گیا ہے جس میں حکومت کے دئیے ہوئے ذرائع اور محکمۂ تعلیم کے فنڈز کو استعمال کرتے ہوئے تقریباً 1000 افراد کی تھرڈ پارٹی کے ذریعےبھرتی کی جائے گی جو کہ ٹیک فیلو کہلائیں گے۔
ایک جانب تو پاکستان کے دیگر اسکولوں میں بلیک بورڈ اور اس پر لکھنے کیلئے چاک تک کا فقدان پایا جاتا ہے جو کہ بدنظمی کے سوا اور کچھ نہیں جبکہ گلگت بلتستان میں ڈیجیٹل اسمارٹ اسکرین یعنی ایسے بورڈ لگائے گئے ہیں جو کمپیوٹر کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں جس کے ذریعے بچوں کو پہلے سے وضع کردہ ڈیجیٹلائزڈ نصاب کےذریعے تعلیم جاتی ہے۔ یہاں آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (اے کے ڈی این ) کی معاونت سے حکومت نے ایک آئی ٹی اینڈ سافٹ وئیر پارک بھی قائم کیا ہے جس میں طلبہ و طالبات اپنے جدید آلات سے لیس آفس حاصل کرکے آئی ٹی کے میدان میں کام کرتے ہیں جبکہ حکومت اے کے ڈی این کے ساتھ مل کر ان کی معاونت کرتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی اور کئی ڈیجیٹل حب بنائے گئے ہیں جہاں طلبہ و طالبات بہت تیزی سے ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھ رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے طلبہ و طالبات کی بڑھتی ہوئی لگن اور دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کئی پرائیویٹ اداروں نے تعلیم کے میدان میں معاونت کا بیڑہ اٹھا لیا ہے جن میں تعلیم کو پروان چڑھانے کی پالیسی کے سبب سلیمان شہاب الدین کی قیادت میں آغا خان یونیورسٹی سرِ فہرست ہے ، یونیورسٹی آف پنجاب، نسٹ، آئی بی اے، کامسیٹ، قائدِ اعظم یونیورسٹی اور دیگر ادارے بھی معاونت کر رہے ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی اور ذیلی ادارے حکومت کے ساتھ مل کرطلبہ و طالبات کو تعلیم میں معاونت فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھار ہے ہیں اور طلبہ و طالبات کو چھوٹے کاروبار یعنی انٹرپرینیورشپ کی بھی ترغیب دی جارہی ہے جس سے یہاں کی نوجوان نسل کو استفادہ حاصل کرنے میں آسانی پیدا ہوئی۔
قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں تعلیمی عمل کے دوران بچے اور بچیوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا اورکسی بھی جنسی تفریق کے بغیر سب کو یکساں تعلیم دی جاتی ہے۔ ماضی میں خصوصاًچند علاقوں میں بچیوں کے والدین ان کو تعلیم کیلئے بھیجنے سے اجتناب برتتے تھے ، اس کیلئے گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے پنک بس کا آغاز کیا جس سے طالبات کی اسکول میں تعداد خاصی بڑھ گئی ہے۔ خاص طور پر اسکردواور دیامر جیسے دور افتادہ علاقوں میں جہاں کے لوگ قدامت پسند سمجھے جاتے ہیں تاہم آج وہی لوگ اپنی بچیوں کی حفاظت کو دیکھتے ہوئے اورعز ت ووقار کے ساتھ ان پنک بسوں میں اپنی بچیوں کو اسکول روانہ کرتے ہیں۔
یہاں میرے لیے یہ بات بھی خوشگوار حیرت کا باعث بنی کہ چیف سیکریٹری نے اپنے گھر کا جم طالبات کے ایک ہاسٹل کو عطیہ کردیا جہاں کی بچیاں ایک بہترین جم کے ذریعے اپنی جسمانی تندرستی کا بھی خیال رکھنے کے قابل ہوگئیں ، جس کا کہ معاشرے پر یقیناً ایک بہت اچھا اور مثبت اثر مرتب ہوا ہے۔ طلبہ و طالبات غیر نصابی سرگرمیوں اور کھیلوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اورایسے کئی اقدامات کے تحت اساتذہ ان شعبہ جات میں بھی بچوں پر خوب توجہ مرکوز کرتے ہیں ۔
نہ صرف تعلیم بلکہ صحت کے شعبے میں بھی گلگت بلتستان میں قابلِ قدر ترقی نظر آتی ہے، جہاں دیکھا یہ گیا ہے کہ چیف کنسلٹنٹ سمیت 13 اسپیشلسٹس کا بندوبست کیا گیا ہے۔ سینئر کنسلٹنٹ 60 اور کنسلٹنٹ 90 کی تعداد میں موجود ہیں اور بہت سے اقدامات کے تحت اتنے زیادہ ڈاکٹرز کا بندوبست ممکن بنایا گیا ۔ اسی طرح میڈیکل آفیسرز، لیڈی میڈیکل آفیسرز، ڈسٹرکٹ آفیسرز اور دیگر عہدیداران کو تعینات کیا گیا ہے۔
حال ہی میں گلگت بلتستان میں دماغی صحت کا ادارہ ہیلپ لائن قائم کیا گیا ہے، جس کیلئے ایک این جی او سے معاونت حاصل کی گئی ہے جس کا مقصد بعض علاقوں میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے رجحان کو روکنا تھا۔ اب توقع کی جارہی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں خودکشی کے واقعات خودبخود کم ہونا شروع ہوجائیں گے۔ گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کے دوران فیسٹیول میں ایسی سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں جن میں باہر سے بھی آ کر لوگ شرکت کرتے ہیں ، بچوں کا ذہن مزید کشادہ ہوتا ہے اور کھیلوں کی جانب دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ سیاحت کے دلدادہ افراد کیلئے گلگت بلتستان میں ایک ایسی موبائل ایپ تیار کی گئی ہے جس کی مدد سے سیاحوں کیلئے مختلف علاقوں میں گھومنا پھرنا آسان ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ سیاحوں کو سہولت فراہم کرنے کیلئے سیاحتی پولیس کو بھی بمعہ سازوسامان تعینات کیا گیا ہے جس میں 435کے لگ بھگ اہلکارسیاحوں کی خدمت پر مامور ہیں، اس کے نتیجے میں اس خطے میں سیاحت کے شعبے میں بجا طور پر ترقی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بچوں کو ماحولیات کے حوالے سے بھی تعلیم و تربیت دی جارہی ہے جس میں باغبانی شامل ہے۔ بچوں کو درخت لگانے میں دلچسپی کے عوامل پیدا کیے جاتے ہیں۔ بہت سے اسکولوں میں بجلی کے حصول کیلئے سولر سسٹم بھی لگائے جاچکے ہیں۔ ایک اور حوصلہ افزاء اور قابلِ تعریف بات جو پورے گلگت بلتستان میں دیکھنے کو ملتی ہے وہ یہ ہے کہ وہاں دیگر صوبوں کی طرح کسی بھی جگہ عوام کو کوڑا کرکٹ بکھرا ہوا یا صفائی ستھرائی کا ناقص انتظام دیکھنے میں نہیں آتا۔ چیف سیکریٹری کا حق بجانب دعویٰ ہے کہ گلگت بلتستان میں صفائی ستھرائی کا انتظام بہت عمدہ ہے جس کا راقم الحروف نے اپنے دورے کے دوران ذاتی طورپر مشاہدہ کیا ہے کہ واقعی گلگت بلتستان ایک صاف ستھرا بلکہ چمکتا دمکتا خطہ بن چکا ہے جو دیگر صوبوں کیلئے ایک جیتی جاگتی اور قابلِ تقلید مثال ہے۔
ماحولیات کے حوالے سے ایک اہم اقدام یہ اٹھایا گیا ہے کہ پورے گلگت بلتستان میں پلاسٹک کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ جی بی حکومت نے قانونی تبدیلیاں لا کر پولیتھین بیگ اور پلاسٹک پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ نتیجتاً شاذو نادر ہی گلگت بلتستان میں کہیں پلاسٹک دیکھنے کو ملتا ہے۔دیگر صوبوں کی طرح سڑکوں پر بھی پلاسٹک بالکل نظر نہیں آتا۔ گرین بزنس اجاگر کرنے کیلئے نوجوانوں کو بلا سود قرضے بھی دئیے جارہے ہیں۔ ان تمام تر باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ خواب کبھی سچ نہیں ہوتے، جب تک کہ آپ ان خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے خود کوئی اقدام نہ اٹھائیں۔بقول شاعر:
خدا نے آج تک اس قو م کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا