پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا مستقبل

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

پاکستان میں معیاری تعلیم کی بہت اہمیت ہے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن، پرائیویٹ اور پبلک یونیورسٹیاں ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے کیلئے کوشاں ہیں۔ یونیورسٹیوں کو چلانے والے ڈائریکٹرز اور تعلیمی محکموں میں مختلف ڈپارٹمنٹس کے سربراہ یہ دعویٰ کرتے ہیں لیکن اب تک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم سے متوقع فوائد حاصل نہیں ہورہے۔

ایک طرف طلبہ اور اساتذہ اور دوسری جانب یونیورسٹی لیکچررز اور اساتذہ ہیں۔ طالبِ علم کی مثال خالی برتن جیسی ہے اور اساتذہ ان میں وہ بھر دیتے ہیں جس کی ان کو خواہش ہوتی ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ اب نہ تو طلبہ کے پاس مارکیٹ کے مطابق ضروری مہارتیں ہیں اور نہ ہی لیکچررز میں وہ قابلیت اور جوش و جذبہ باقی ہے، ایسا کیوں ہے؟

دراصل یونیورسٹی کی سطح کے اساتذہ کو جو معاوضہ دیا جاتا ہے، وہ گھریلو اخراجات پورے کرنے کیلئے بھی بہت کم ہوتا ہے۔ کیا یونیورسٹیاں ایسے کاروباری ادارے ہیں جو صرف اپنی آمدنی کا خیال رکھ سکیں، کیا وہ اپنے ملازمین کا خیال نہیں رکھ سکتیں؟

ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 26 جنوری 2017ء کو پاکستان کی تمام یونیورسٹیز کو ایک مراسلہ جاری کیا جس میں لیکچررز کی تقرری کیلئے کم از کم قابلیت ایم فیل کی سطح تک بڑھا دی گئی لیکن کوئی سرکلر جاری نہیں کیا گیا۔ لیکچررز کی تنخواہوں میں اضافے کیلئے تعلیم کا معیار کیا ہے؟ کیا ہم 5 کورسز کراتے ہوئے لیکچررز سے تدریس کے معیار اور شفافیت کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ اور میں نے ذاتی طور پر اس کا تجزیہ کیا ہے۔ بہت سی نجی یونیورسٹیاں اس قسم کی تعلیمی بد دیانتی پر عمل پیرا ہیں۔ لیکچرار کی جیب 60 یا 70 ہزار سے بھی جاتی ہیں۔

تدریسی پیشے کو اعلیٰ ترین اور معروف سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ معاشروں کی اصلاح کا عمل ہے، قومیں تعلیم سے ہی ترقی کرتی ہیں۔ ہم تعلیم کے نام پر جو کچھ طلبہ کو دے رہے ہیں، وہ قابلِ اعتراض ہے اور جان بوجھ کر اساتذہ کا حوصلہ پست کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ جنہیں اعلیٰ تعلیم کے نام نہاد مشعل بردار قرار دیا جاسکتا ہے، آج بھی موٹر سائیکلز پر یونیورسٹیوں میں داخل ہوتے ہیں جبکہ طلبہ گاڑیوں پر سوار ہوتے ہیں۔

یہاں ہم طلبہ یا ان کے والدین کی آمدنی کی سطح چیلنج نہیں کر رہے بلکہ آمدنی کے فرق کو اجاگر کرنا مقصود ہے جس کا سامنا یونیورسٹی سطح کے لیکچررز کو کرنا پڑتا ہے کہ وہ 10 یا 15 سالہ تدریسی تجربے کے بعد بھی گاڑی خریدنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اپنا گھر خریدنا تو دور کی بات ہے۔ جن سرکاری یونیورسٹیوں کا بجٹ اچھا ہوتا ہے وہاں وسائل بھی اچھے ہوتے ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے کہ ہونے چاہئیں۔ میرے ایک دوست 10 سالہ تدریسی تجربے کے بعد بھی صرف 1 لاکھ روپے ماہانہ یا کم کی سطح پر ہیں جو تشویشناک ہے۔

کم و بیش 221 ممالک اور 3 ہزار 628 ملازمتوں کی اوسط تنخواہوں پر معلومات شائع کرنے والی ڈیٹا بیس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں رواں برس ایک لیکچرر کی اوسط تنخواہ 54 ہزار 933روپے ماہانہ ہے۔ انٹرنیشنل ٹریڈ ایڈمنسٹریشن (آئی ٹی اے) یو ایس ڈیٹا بیس کی جانب سے 12 جنوری 2024 کو شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ میں ب تایا گیا کہ پاکستان میں 200 سے زائد یونیورسٹیاں طلبہ کو اعلیٰ تعلیم فراہم کر رہی ہیں۔ پاکستان کے اقتصادی سروے 2019-2020 کے مطابق 65 فیصد اساتذہ نان پی ایچ ڈی ہیں۔ 2017-2018 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے کل وقتی فیکلٹی ممبران کیلئے شائع کردہ فیکلٹی ممبران میں نان پی ایچ ڈی ممبران کی تعداد 56 سے 80 فیصد تک ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ لیکچررز اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں بہت محنت کر رہے ہیں، تاہم اگر ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے تنخواہ پر نظر ڈالی جائے تو وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف نظر آتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ویب سائٹ پر کہیں بھی لیکچررز کے پے اسکیل کے معیارات اس قسم کے نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی میں ٹیچنگ کی نوکری کے حوالے سے کیا یہ تنخواہ لیکچرر کا حوصلہ بلند رکھنے کیلئے جائز محسوس ہوتی ہے؟ خاص طور پر اس وقت جب اسی سطح کا تجربہ رکھنے والے دوسرے لوگ مختلف اچھے کالجز اور اسکولوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں، تو جواب نفی میں ہوگا۔ میرے سروے اور تجربے کے مطابق لیکچررز اپنی موجودہ تنخواہوں سے مطمئن نہیں اور سب سے کم تنخواہیں تو بے حد کم ہیں، اس لیے یہ صرف بے روزگاری سے نکلنے کا طریقہ بن گیا ہے اور اس لیے لیکچررز مناسب جوش و جذبے سے تعلیم دیتے نظر نہیں آتے۔

تدریس کا معیار اپنی معیاری رفتار حاصل نہیں کرسکا کیونکہ یہ بھی کم تنخواہوں سے متاثر ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں طلبہ کی مہارتیں مارکیٹ کا مقابلہ کرنے کی حد تک نہیں پہنچتیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری و ساری ہے اور ہائر ایجوکیشن اس پر مکمل طور پر توجہ دینے سے انکاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اس صورتحال پر خاموش کیوں ہے؟ اور یونیورسٹیوں کیلئے تنخواہوں میں اضافے کا معیار کیوں نافذ نہیں کیا گیا؟ جبکہ یونیورسٹیاں بہت زیادہ آمدنی حاصل کر رہی ہیں۔ جب بات لیکچررز کو ادائیگی کی آتی ہے تو جامعات خاموش ہوجاتی ہیں۔

ایسی صورتحال میں اساتذہ کے پاس اپنا کام جاری رکھنے اور اچھے وقت  کا انتظار کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا لیکن اچھا وقت ہے کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ فیکلٹی ممبران کو مناسب معاوضہ نہ دینے پر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ انتقامی کارروائی کے طور پر جان بوجھ کر تدریس کا معیار کم کردیں، جس سے طلبہ کا نقصان ہوتا ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن ویژن 2025 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم انسانی سرمائے کی ترقی کے ایسے عمل کو نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں جو نہ صرف پیشہ ورانہ طور پر شاندار اور قابل ہو بلکہ اخلاقی طور پر منصفانہ اور جمہوری سماجی نظام کی تشکیل کیلئے پر عزم ہو۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہائر ایجوکیشن کمیشن لیکچررز کے ساتھ انصاف کر رہا ہے؟ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی سرمایہ اخلاقی بنیادوں پر فروغ پاسکے گا؟یقیناً نہیں اور اس طرح کی صورتحال بالآخر بے اطمینانی اور مایوسی کو پھیلانے کا باعث بنے گی۔ ہم نے محض کھوکھلی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں جو صرف کتابوں میں ہی اچھی لگتی ہیں اور جن کا حقیقت سے دور پرے کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ 77 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں فیکلٹی ممبران، خصوصاً یونیورسٹی لیکچررز کی تنخواہوں یا معاوضے میں اضافے کے حوالے سے حکمتِ عملی یا کاوشوں کے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔

خلاصہ یہ کہ اگر آپ اساتذہ کو وہ نہیں دیں گے جس کے وہ حقدار ہیں تو آنے والی پوری نسل تباہ ہوجائے گی۔ یہ تصور بلاشبہ  قابلِ تعریف ہے کہ تدریس ایک عظیم پیشہ ہے اور اساتذہ ایک نیک مقصد کیلئے اپنے اندرونی حوصلے اور جوش و جذبے سے کام کرتے ہیں لیکن اسے سمجھنے میں ہمیشہ سے غلطی کی گئی۔ تدریس عظیم پیشہ ضرور ہے لیکن اساتذہ کو اچھے معاشی اور مالی فوائد سے محروم بھی نہیں کرنا چاہئے جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہاں ہم اساتذہ کے احترام کی بات نہیں کررہے ہیں جس سے ایک نئی بحث چھڑ سکتی ہے اور بدقسمتی سے ہماری یونیورسٹیوں میں طلبہ کی جانب سے اساتذہ کا احترام انتہائی کم اور بعض جگہوں پر صفر تک ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ اس میں استاد کا قصور ہے کیونکہ وہ نیک مقصد کیلئے اپنی پوری کوشش اور لگن سے کام کیوں نہیں کرتے؟ پھر میں یہ تجویز دوں گا کہ یونیورسٹیاں طلبہ سے فیسیں لینا بند کردیں  تاکہ جو نیک مقاصد صرف اساتذہ پر ڈالے جارہے ہیں، وہ تعلیم کے نام نہاد ٹھیکے داروں میں یکساں طور پر تقسیم ہوجائیں۔ شاید تب ہی وہ جان سکیں کہ کیا ضروری ہے اور کیوں؟ اہم بات یہ ہے کہ اگر یونیورسٹیاں زیادہ صلاحیت کے حامل کام کا بوجھ اٹھانے والے اساتذہ کو کم تنخواہیں دے کر ان کا استحصال کرتی رہیں گی تو وہ وقت دور نہیں جب لیکچررز کا حوصلہ، تدریسی معیار اور پورا تعلیمی نظام بالآخر تباہ و برباد اور زمیں بوس ہوجائے گا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مجسمۂ آزادی بنا کر چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ ہم نے تعلیم کیلئے نعرے بازی کے سوا اور کچھ نہیں کیا جبکہ عمل کا درست وقت آج ہے۔