“دریا سے سمندر تک” یہ ایک سیاسی نعرہ ہے جو جغرافیائی طور پر دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان کے علاقے کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس میں اس وقت ریاست اسرائیل اور فلسطینی علاقے شامل ہیں۔
“دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہو گا” یہ ایک عوامی نعرہ ہے جو بطور خاص دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حامی اور اسرائیل کے مخالف کارکن اپنی سرگرمیوں کے دوران استعمال کرتے ہیں۔
‘دریا سے سمندر تک فلسطین’ کا مطلب یہ ہے کہ یہ پورا علاقہ فلسطینیوں کا ہے، اس کے درمیان اسرائیل نامی جو ریاست قائم کی گئی ہے، یہ غیر قانونی ہے اور اس کو ختم کرکے دوبارہ اس پورے علاقے کو فلسطین قرار دینا چاہئے۔
کیا آرمی چیف نے علماء و مشائخ سے بلٹ پروف شیشے کے پیچھے سے ملاقات کی؟
یہ پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین (پی ایف ایل پی) سے لے کر حماس تک آزادی پسندوں اور ان کے ہمدردوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی علامت ہے، جس سے اسرائیل کے حامیوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔
چنانچہ اسرائیل کا حامی میڈیا اور اسرائیل نواز لوگ اس نعرے کو یہود مخالف قرار دیتے ہیں، تاہم فلسطینی نژاد امریکی مصنف یوسف منیر کا ماننا ہے کہ جو لوگ اس نعرے کو نسلی تعصب سے جوڑ کر یہود مخالف قرار دیتے ہیں، وہ در اصل دوسری انتہا یعنی اسلاموفوبیا کا شکار ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق یہ (دریا سے سمندر تک) محض ایک ایسی ریاست کی خواہش کا اظہار کرنے کا ایک طریقہ ہے جس میں فلسطینی اپنے وطن کے احساس کے ساتھ آزاد اور مساوی شہری کے طور پر رہ سکیں۔