کراچی : فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں انجم نثار نے سی پیک منصوبے میں شامل 700 میگا واٹ بجلی کے آزاد پٹن ہائیڈل پاور پروجیکٹ کی تعمیر کے لئے پاک چین معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے اور تجویز دی ہے کہ حکومت مزید ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کو اس منصوبے کا حصہ بنائے۔
انہوں نے کہاکہ ایف پی سی سی آئی کو امید ہے کہ دریائے جہلم پر واقع یہ منصوبہ 2026 میں اپنے مقررہ وقت کے اندر مکمل ہوجائے گا اور ملک کے کئی دیگر ہائیڈرو پاور منصوبوں کی طرح اس میں تاخیر نہیں ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ عام عوام اور کاروباری برادری کے لئے خصوصی طورایک خوشخبری ہے کیونکہ نیا منصوبہ ملک کو سستی اور گرین انرجی کی طرف گامزن کرنے کے قابل بنائے گا جس سے مقامی ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے علاوہ 1.5 بلین ڈالر کی مقامی اور بیرونی سرمایہ کاری کے مواقعے پیدا ہونگے۔
میاں انجم نثار نے ڈیموں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ملک میں پانی کے ذخیرے تیار کرکے پانی دستیاب ہوجائے تو زیادہ سے زیادہ 20 ملین ایکڑ بنجر اراضی کو قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیموں کی تعمیر سے ملک غذائی تحفظ حاصل کرنے اور گھریلو اور صنعتی شعبوں میں پانی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ضروریات سے نمٹنے کے لئے قومی زراعت کو مستحکم کرنے کے لئے قومی گرڈ میں قابل قدر کم لاگت پن بجلی میں اضافہ دینے کے ساتھ ساتھ ملکی شعبہ زراعت کو مضبوط بناسکتا ہے۔
انہوں نے اس ضمن میں حکومتی مستقبل کے منصوبے کی تائید کی کہ پاور ڈویژن کی جانب سے کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی منظوری کے لئے اقتصادی رابطہ کمیٹی اور آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ محل ہائیڈرو پاور پراجیکٹ جو تمام دریائے جہلم پر ہے، کو سمری منتقل کی گئی ہے جو ملک کی ترقی و خوشحالی میں سنگ میل ثابت ہوگا۔
انہوں نے شارگتھنگ، حنزال، چلاس، نلٹر اور حسن آباد ہنزہ سمیت بجلی کے دیگر منصوبوں پر بھی تیزی سے کام کرنے پر زور دیا، اس کے علاوہ کالاباغ ڈیم کی جلد تعمیر بھی کی جائے جو قومی معیشت کے لئے سب سے موزوں منصوبہ ہے کیونکہ اس سے سستی اور کافی بجلی پیدا ہوگی۔
ایف پی سی سی آئی کے صدر نے ملک میں پانی اور پن بجلی کے شعبوں کے حالیہ منظرنامے کے عوامل کا ذکر کرتے ہوئے ذکرکیا کہ مضبوط ترقیاتی میکانزم ایک جگہ پر رکھ کر اور فوری فیصلہ سازی کا استعمال کرتے ہوئے صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاجر برادری سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز پانی، خوراک اور توانائی کے تحفظ کے لئے قومی واٹر پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کو کسی بھی قیمت پر نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے، کیونکہ پانی کی قلت ہو رہی ہے۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے زمینی حقائق سے لاعلم ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک میگا واٹرپراجیکٹ زرعی ملک کے لئے کیسے نقصان دہ ہوسکتا ہے؟انہوں نے کہا کہ دس لاکھ ایکڑ فٹ پانی معیشت کو سالانہ 2 ارب ڈالر مالیت کا فائدہ دیتا ہے جبکہ پاکستان ڈیم کی تعمیر میں تاخیر کرکے 35 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کررہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سالانہ 70 ارب ڈالر ضائع کررہے ہیں جو ملک کے بیرونی قرضوں کے برابر ہے۔انہوں نے مزیدکہا کہ ہائیڈرو پاور جدید ترین اور پختہ قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی ہے اور دنیا بھر میں 160 سے زائد ممالک میں بجلی کی پیداوار میں مدد فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کیا کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی مسلسل پانی کی کمی پر حکومت کو وارننگ جاری کرتا رہا ہے اور زور دیا کہ پی ایس ڈی پی کے تمام مختص صرف پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھانے پر خرچ کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر آنے والے سالوں میں پانی کے بحران سے بچنا چاہتا ہے توپاکستان کو پانی ذخیرہ کرنے کیلئے میگا اور چھوٹے ڈیموں کی تیاری کرنی ہوگی۔
ایف پی سی سی آئی نے اس بات کی تعریف کی ہے کہ ملک میں کورونا کی موجودہ صورتحال کے باوجودچین پاکستان اقتصادی راہداری کے میگا پروجیکٹ کو پوری طاقت کے ساتھ آگے بڑھایا جارہا ہے اور امید ہے کہ آئندہ بھی سی پیک کے تحت مزید منصوبوں پر دستخط ہوں گے۔
ہم وزیر اعظم عمران خان کے وژن کی مکمل حمایت کرتے ہیں، جس کے مطابق ملک مہنگے درآمد شدہ ایندھن کو استعمال کرنے کے بجائے صاف اور سستی بجلی پیدا کرنے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے۔
مزید پڑھیں:صنعتکاروں کا لوڈشیڈنگ کے باوجود کراچی کیلئے بجلی مہنگی کرنے پر شدید احتجاج