ملک بھر میں سیلاب نے کتنے معصوم لوگوں کی جانیں لے لیں، کتنے مویشی سیلابی ریلے میں بہہ گئے اور کتنے زندہ بچ جانے والے وبائی امراض اور دیگر مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔
انسان قدرتی آفات کو تو روک نہیں سکتا مگر ایسی آفات کے امکانات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات ضرور اٹھا سکتا ہے۔ جس سے نقصانات کو کم سے کم سطح پر رکھا جا سکے، اسی لیے اس وقت ملک میں ڈیم بنانے کی اشد ضرورت۔
پاکستان میں ڈیمز کی تعداد
دنیا کے 140 ممالک نے 45 ہزار سے زائد ڈیمز بنائے ہیں، یہی نہیں بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی 4407 چھوٹے بڑے ڈیمز موجود ہیں جبکہ پاکستان میں اب تک صرف 150 ڈیمز بنائے گئے ہیں۔
پاکستان میں تعمیر ہونے والا آخری ڈیم
پاکستان میں مکمل طور پر تعمیر کیا جانے والا آخری ڈیم تربیلا ڈیم تھا، اس ڈیم کا تعمیراتی کام جنرل ایوب کے دور میں شروع ہوا جبکہ یہ 1974 میں مایہ تکمیل پر پہنچا۔
44 سال بعد عمران خانے کے دورہِ حکومت میں ڈیمز کی تعمیر
44 سال بعد عمران خان کے دور میں ایک مرتبہ پھر ڈیم بنانے کا آغاز کیا گیا۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں ملک میں دس نئے ڈیمز پر کام شروع کروایا گیا۔ جن میں سے دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم پر صرف تختی نہیں لگائی گئی بلکہ عملی طور پر کام بھی شروع کروایا گیا۔
دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم
عمران خان کے دور میں بنایا جانے والا دیامر بھاشہ ڈیم پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم ہو گا جس سے 4800 میگاواٹ سستی بجلی حاصل ہو گی، اس میں 81 لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی ذخیرہ بھی ہو سکے گا ۔ اس کی تعمیر 2028ء میں مکمل ہو گی۔
مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد عمران خان نے 2019ء میں رکھا یہ ڈیم 2024ء میں مکمل ہو جائے گا ۔ دریائے سوات پر بننے والے اس ڈیم سے 800 میگاواٹ سستی بجلی حاصل ہو گی، اس ڈیم سے صوبہ خیبر پختونخوا کی سولہ ہزار ایکڑ اراضی بھی سیراب ہو گی۔
کالا باغ ڈیم کیوں ضروری تھا
کالا باغ ڈیم کے منصوبے پر کام تو 1950 میں شروع کیا گیا تھا لیکن حکومتِ پاکستان کا بجلی پیدا کرنے کا یہ ’سب سے بڑا منصوبہ‘ تاحال مکمل نہ ہو سکا۔
شروع سے ہی تنازعات کا شکار رہنے والے ڈیم کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ اگر اس پر کام کیا جاتا تو یہ پاکستان کے لیے بجلی اور زراعت کے حوالے سے انتہائی فائدہ مند ہوتا۔ اس سے نا صرف چاروں صوبوں کو فائدہ پہنچتا بلکہ بے تحاشا سستی بجلی بھی پیدا ہوتی، اور سب سے بڑھ کرسندھ میں سیلاب اس قدر تباہی کا سبب نہ بنتا۔
بجلی کی پیداوار کے لیے ڈیم کی ضرورت
ملک میں بجلی کی قلت عروج پر ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ملک 64 فیصد بجلی قدرتی ایندھن کے ذریعے پیدا کرتا ہے، جس سے ڈیزل کے ذریعے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 26 روپے فی یونٹ ہے جبکہ کوئلے کے ذریعے بجلی کی قیمت 14 روپے فی یونٹ پڑتی ہے۔
یہی نہیں بلکہ پاکستان بجلی بنانے کے لیے فرنس آئل، کوئلہ اور آر ایل این جی دیگر ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ جیسے ہی عالمی مارکیٹ میں ان تینوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ویسے ہی پاکستان میں بجلی بنانے کی لاگت میں بھی اضافہ سامنے آتا ہے اور اس اضافے کو فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں صارفین سے وصول کیا جاتا ہے۔
ملک کے 150 چھوٹے بڑے ڈیمز کے ذریعے صرف 27 فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے، پانی سے پیدا کی جانے والی بجلی کی قیمت تقریبا ڈھائی روپے فی یونٹ پڑتی ہے۔
اس فرق سے اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی کہ ڈیم کی آفادیت صرف قدرتی آفات کو روکنے کے لیے ضروری نہیں بلکہ ڈیم کی تکمیل سے بجلی کی قیمت کم ہونے کے بعد ملک کے دیگر مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں، سب سے بڑھ کر عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف ملے گا اور بجلی سستی ہونے کے بعد ملک میں سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے یقیناََ ملکی معیشیت بھی بہتر ہوگی۔