مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines

مشرق وسطیٰ ایک خطرناک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان شدت اختیار کرتا تنازعہ دنیا بھر کو بے چینی اور اضطراب کی کیفیت میں مبتلا کر چکا ہے۔

بظاہر یہ دو دشمن ممالک کے درمیان ایک براہِ راست فوجی تصادم ہے، لیکن حقیقت میں اس کے پیچھے عالمی طاقتوں، خصوصاً امریکہ کی واضح مداخلت موجود ہے۔

یہ صرف ایران اور اسرائیل کی جنگ نہیں بلکہ ایک عالمی طاقت، نظریے اور اثرورسوخ کی جنگ کا ایک سنگین موڑ ہے۔ اگر دنیا نے بروقت اور ایماندارانہ اقدام نہ کیا تو یہ آگ تہران یا تل ابیب سے بہت دور تک پھیل سکتی ہے۔

16 جون 2025 کو ایران نے اسرائیلی شہروں تل ابیب، پتہ تکوا اور حیفہ پر چوتھی بار میزائل حملے کیے جن میں کم از کم پانچ شہری جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔

یہ حملے اسرائیل کے فضائی آپریشن “آپریشن رائزنگ لائن” کے جواب میں کیے گئے، جس میں اب تک 220 سے 400 ایرانی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں عام شہری اور سائنسدان بھی شامل ہیں۔ تہران میں خوف و ہراس کے عالم میں ہزاروں افراد شہر چھوڑ چکے ہیں جبکہ تیل کے ڈپو اور فوجی تنصیبات میں آگ بھڑک رہی ہے۔

اسرائیل نے مغربی ایران پر فضائی برتری کا دعویٰ کیا ہے، جو درحقیقت امریکی تعاون کے بغیر ممکن نہ ہوتا۔ جدید اسلحہ، انٹیلی جنس نیٹ ورکس، سیٹلائٹ گائیڈنس، سائبر حملے کی صلاحیت اور ایندھن کی ترسیل یہ سب امریکہ کی مدد سے ممکن ہوا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی شمولیت کی تردید اور ساتھ ہی یہ انتباہ کہ “اگر امریکی تنصیبات پر حملہ ہوا تو امریکہ پوری قوت سے جواب دے گا”، واشنگٹن کی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔

یہ محض ایک دفاعی جنگ نہیں بلکہ ایران کے علاقائی اثرورسوخ اور مذہبی حکومت کو کمزور کرنے کی کھلی کوشش ہے۔ ایران ہمیشہ سے مغرب کے لیے ایک مزاحم قوت رہا ہے، جو لبرل عالمی نظام کا حصہ بننے سے انکار کرتا رہا ہے۔

اب کی بار ہدف ایران کے ایٹمی پروگرام سے آگے بڑھ کر اس کے نظامِ حکومت کو ہلا دینا ہے۔ ایرانی سائنسدانوں، فوجی رہنماؤں، اور اسٹریٹجک ڈھانچوں پر حملے اس نیت کا پتہ دیتے ہیں۔ ایران کے اندر سے انٹیلی جنس لیکس ظاہر کرتی ہیں کہ اندرونی کمزوریوں کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یورپی یونین نے صرف “کشیدگی سے گریز” کے بیانات تک خود کو محدود رکھا ہے، جو درحقیقت اسرائیلی اقدامات کی خاموش حمایت سمجھی جا سکتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مغربی دنیا ایران کی حکومت کو کمزور یا گرانے کے ایجنڈے پر متفق ہے۔

دنیا بھر میں، خصوصاً ایشیا، لاطینی امریکہ، اور مسلم دنیا میں اسرائیل کے اقدامات اور مغربی منافقت کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ عوام اپنی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے سفارتی اور معاشی اقدامات کیے جائیں۔ یہ بدلہ لینے کی بات نہیں بلکہ انصاف، توازن اور امن کے لیے ایک عالمی مطالبہ ہے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے 14 جون کو قومی اسمبلی میں ایک تاریخ ساز انتباہ دیا کہ “آج ایران ہے، کل پاکستان یا کوئی اور مسلم ملک ہو سکتا ہے۔”یہ بیان اس سچ کو بے نقاب کرتا ہے کہ یہ تنازع کوئی علیحدہ واقعہ نہیں بلکہ ایک سلسلے کا حصہ ہے، جس میں وہ مسلم ممالک جو مغربی یا اسرائیلی مفادات کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں ایک ایک کر کے نشانہ بنایا جاتا ہے چاہے فوجی انداز میں ہو یا معاشی۔

خواجہ آصف کا یہ مطالبہ کہ مسلم ممالک کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنی چاہیے، نہایت بروقت اور ضروری ہے۔ ایک ایسے ملک سے تعلقات رکھنا جو کسی دوسرے مسلم ملک پر حملہ کرتا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاشی مفاد اصولوں پر حاوی ہے۔ یہ غلط پیغام ہے۔

اگر ایران نے اسرائیل یا امریکی تنصیبات پر براہِ راست حملہ کیا تو خطہ مکمل جنگ میں جھونکا جا سکتا ہے۔ حزب اللہ اور حوثی جیسے گروہ پہلے ہی متحرک ہو چکے ہیں۔ ایک معمولی غلطی پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

اگر ایران نے مزید حملے برداشت کیے تو یہ کمزوری کی علامت سمجھی جائے گی، جس سے اسرائیل اور اس کے حامی مزید جارحیت پر آمادہ ہوں گے اور ایران اندرونی طور پر بھی غیر مستحکم ہو جائے گا۔

امریکہ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ جنگ کا حصہ بننا چاہتا ہے یا امن کا داعی؟ اس کی اخلاقی حیثیت اس وقت اس کے فوجی ہتھیاروں میں نہیں بلکہ سچ بولنے، اپنے اتحادیوں کو روکنے، اور سفارت کاری کا دروازہ کھولنے میں ہے۔ موجودہ دہری پالیسی ناقابل برداشت ہو چکی ہے یہ انتہا پسندی کو بڑھاتی ہے اور امریکہ کی اخلاقی حیثیت کو کھوکھلا کرتی ہے۔

یہ ایک عالمی بحران ہے۔ اگر دنیا نے اس لمحے سچائی، انصاف اور اتحاد کا راستہ نہ اپنایا تو اس کا خمیازہ سب کو بھگتنا ہوگا۔ مسلم دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ اتحاد اب محض نعرہ نہیں بلکہ بقاء کا تقاضا ہے۔

اگر آج ایران اس آگ میں جل گیا تو کل کراچی، ریاض یا قاہرہ اس کی لپیٹ میں ہو سکتا ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ تمام اقوام متحد ہو کر امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی ریاستی دہشتگردی کے خلاف آواز بلند کریں انصاف، خودمختاری اور امن کے اصولوں کے ساتھ نہ کہ انتقام یا جنگ کے ذریعے۔

Related Posts