ماہرین کے جڑواں بچوں سے متعلق اہم انکشافات سامنے آگئے

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ماہرین کے جڑواں بچوں سے متعلق اہم انکشافات سامنے آگئے
ماہرین کے جڑواں بچوں سے متعلق اہم انکشافات سامنے آگئے

لندن: دنیا میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال 16 لاکھ جڑواں بچے پیدا ہو رہے ہیں یعنی ہر 42 میں سے ایک جوڑے کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہو رہے ہیں۔

برطانوی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ  کے مطابق 1980 کے بعد جڑواں بچوں کی پیدائش میں تین گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ 30 سالوں میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح سب سے اوپر ہے جس میں 32 فیصد اضافہ ایشیا جب کہ 71 فیصد شمالی امریکا میں ریکارڈ کیا گیا۔

جائزہ رپورٹ میں دنیا بھر کے 166 ممالک سے جڑواں بچوں کا 2010 سے 2015 تک کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا اور پھر اس کا موازنہ 1980 سے 1985 کے درمیان پیدا ہونے والے جڑواں بچوں سے کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق یورپ اور شمالی امریکا میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح زیادہ ہے جب کہ اگر دنیا بھر میں جڑواں بچوں کی مجموعی صورتحال کی بات کی جائے تو یہ تعداد ہر 1000 میں سے 9 سے بڑھ کر 12 ہوئی ہے۔

جائزے کے مطابق افریقا میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح ہمیشہ سے ہی زیادہ رہی ہے اور گزشتہ 30 سالوں کے دوران اس شرح میں کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔

یہ بھی پڑھیں : مصرمیں گارمنٹ فیکٹری میں آتشزدگی، 20افراد ہلاک،24زخمی

اس تحقیق میں شامل آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر کرسچن مونڈن کا کہنا ہے افریقا میں جڑواں بچوں کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ وہاں جڑواں بچوں کا دو زرخیز بیضوں (ڈائی ذائی گوٹک ٹوئنز) کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں ہونے والے 80 فیصد جڑواں بچے افریقا اور ایشیا میں پیدا ہوتے ہیں تاہم پروفیسر کرسچن مونڈن کا کہنا ہے کہ اب یورپ، شمالی امریکا اور جزیروں پر واقع ممالک میں بھی اس شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جائزے کے مطابق خواتین کی جانب سے دیر سے خاندان شروع کرنا، مانع حمل ادویات کے استعمال میں اضافہ اور بچوں کی پیدائش میں کمی کی شرح بھی جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافے کا باعث ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ اب ایک بچے کی پیدائش پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے جو ایک محفوظ عمل بھی ہے جب کہ جڑواں بچوں کی پیدائش میں اموات کی شرح اور دوران حمل ماؤں اور بچوں کے لیے مشکلات زیادہ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش کے معاملے میں اکثر اوقات بچے قبل از وقت پیدا ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے پیدائش کے وقت ان کا وزن کم ہوتا ہے۔

Related Posts