ایکسائز افسران اور کار ڈیلرنے امریکہ پلٹ شہری سے 8 کروڑ لوٹ لئے

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Excise officers and car dealers looted Rs 80 million from a citizen

اسلام آباد:ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفس اسلام آباد کے کرپٹ افسران کا ایک اور کارنامہ منظرعام پر آگیا۔ایکسائز آفس کے اہم عہدوں پر براجمان افسران نے مبینہ طور پر ایک کار ڈیلر کے ساتھ سازباز کرکے امریکہ پلٹ شہری کو 8 کروڑ روپے کا ٹیکہ لگا دیا۔

متاثرہ شہری نے ایکسائز آفس کے اس منظم فراڈیئے گروہ کے خلاف قانونی کارروائی اور حصول انصاف کے لئے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

اس حوالے سے موصولہ معلومات کے مطابق امریکہ پلٹ شہری چوہدری محمد مشتاق نے ساڑھے سات کروڑ روپے میں کار ڈیلر محمد یونس ولد محمد رفیق سے لیکسز گاڑی (LX-750) اپلائیڈ فار ماڈل 2019ء خریدنے کا سودا طے کیاجبکہ اس حوالے سے 22 ستمبر 2020ء کو فریقین کے مابین سٹامپ پیپر پر سیل ایگریمنٹ بھی ہوا۔

اس سٹامپ پیپر میں واضح طور پر تحریر موجود ہے کہ مذکورہ گاڑی کا پچاس لاکھ روپے بیعانہ 22 ستمبر 2020ء کو ادا کر دیا گیا ہے جبکہ گاڑی مذکورہ چونکہ ان رجسٹرڈ ہے اور گاڑی مذکورہ کے کاغذات ایکسائز آفس اسلام آباد سے کاغذات تصدیق اور رجسٹرڈ ہونے کے بعد ڈیلر بقیہ رقم وصول پانے کا حقدار ہے۔

متاثرہ شہری چوہدری محمد مشتاق کے مطابق میں نے یہ گاڑی اسی شرط پر خریدی تھی کہ گاڑی ایکسائز ڈیپارٹمنٹ سے اوکے ہونے کے بعد رقم کی ادائیگی کی جائے گی ۔جس کے بعد ڈیلر یونس گاڑی کے تمام کاغذات ہمراہ گاڑی ایکسائز آفس گیا اور مجھے بھی وہیں بلا لیا۔

جہاں ڈیلر نے پہلے سے ہی ایکسائز آفس کے افسران کے ساتھ ”معاملات “ طے کر رکھے تھے۔ای ٹی او چوہدری طارق اور انسپکٹر مشتاق نے گاڑی کی فائل چیک کی اور اوکے قرار دیکر سائن مہر لگائے جس کے بعد گاڑی فزیکل چیکنگ کے لئے ایکسائز انسپکٹر حبیب گجر کے پاس گئی۔

انہوں نے بھی گاڑی چیک کرنے کے بعد اوکے کرکے دستخط کئے اور مہر لگائی،اسی بناء پر میں نے نیشنل بینک میں 29 ستمبر 2020ء کو چالان فیس 31 لاکھ 22 ہزار 8 سو 74روپے جمع کرائی اور777 نمبر لینے کے لئے درخواست جمع کرائی اور اور ڈیلر کو طے شدہ بقیہ رقم بھی ادا کردی ۔

دو ہفتوں کے بعد ایکسائز کے انہی افسران نے ٹال مٹول سے کام لینا شروع کیا۔ مجھے پر دوبارہ گاڑی چیکنگ کے لئے ایکسائز آفس لانے پر ضرور دینا شروع کر دیا اور بتایا کہ گاڑی کے کاغذات دو نمبرہیں جس پر میں نے انہیں کہا کہ گاڑی پہلے بھی ایکسائز آفس آچکی ہے اور تمام متعلقہ افسران سے چیک ہوچکی ہے اور فائل پر تمام افسران کے دستخط و مہر موجود ہیں لیکن وہ کسی طور پر اپنی غلطی ماننے کو تیار نہ ہوئے۔

متاثرہ شہری کے مطابق ایکسائز آفس کے افسران نے ڈیلر کے ساتھ مل کر چالیس سے پچاس لاکھ روپے لے کر پہلے گاڑی کو اوکے ظاہر کیاجس کے بعد سرکاری فیس تقریباً 32 لاکھ روپے بھی وصول کی اور اب گاڑی دو نمبر قرار دیکر چیکنگ کے نام پر گاڑی بھی ضبط کرنا چاہتے ہیں۔

اگر ایکسائز آفس کے یہ افسران پہلے ہی مجھے بتا دیتے کہ گاڑی دو نمبر ہے تو میں ڈیلر سے گاڑی خریدنے کے لئے اتنی خطر رقم کی پے منٹ ہی نہ کرتا۔ایکسائز آفس کے افسران نے ڈیلر محمد یونس سے مل کر مجھے آٹھ کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا ہے اور ذہنی اذیت الگ سے دی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جب ڈائریکٹر ایکسائز بلال اعظم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ہمیں سپرنٹنڈنٹ ذوہیب کے پاس بھیج دیا۔سپرنٹنڈنٹ ذوہیب پہلے یہ کہتا رہا کہ ہمارے پاس گاڑی کی فائل ہی موجود نہیں ہے بعدازاں وہ بھی گاڑی دوبارہ چیکنگ کے لئے لانے پر زور دیتا رہا۔

مزید پڑھیں:اسلام آباد جرائم پیشہ عناصر کیخلاف گھیرا تنگ، 6 ملزمان پولیس کی گرفت میں آگئے

متاثرہ شہری چوہدری محمد مشتاق نے مزید کہا کہ میں امریکی شہریت رکھتا ہوں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے غرض سے آیا تھا میں کیوں دو نمبر گاڑی خریدوں گا؟ لیکن ایکسائز کے ان افسران نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت میرے ساتھ فراڈ کیا ہے جن کے خلاف قانونی کارروائی کے لئے ہر پلیٹ فارم پر جاؤں گا۔

Related Posts