ترکیہ میں الیکشن کی گہماگہمی عروج پر، ایردوان کی شکست کے آثار واضح

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ترکیہ میں صدارتی انتخابات کے قریب آتے ہی دو اہم حریفوں ایردوان اور کمال کلیچدار اوگلو نے کھلے میدانوں میں عوام سے خطابات شروع کردیے ہیں۔ ترکیہ میں صدارتی الیکشن 14 مئی کو ہوں گے۔ دونوں امیدواروں کی انتخابی مہم عروج پر پہنچ گئی ہے، تاہم اس بار دو دہائیوں میں پہلی بار صدر رجب طیب ایردوان کی شکست کے آثار واضح ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ ترک عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔

“ریپبلکن پیپلز پارٹی” کے سربراہ کمال کلیچدار اوگلو اور اے کے پارٹی کے سربراہ اور موجودہ صدر رجب طیب ایردوان نے طاقت اور تشہیر کے طاقتور مظاہرے کیے۔ ان جلسوں میں ہزاروں لوگ امڈ آئے۔

استنبول میں کمال اوگلو نے پانچ دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ اپوزیشن اتحاد کا جلسہ کیا۔ اس مظاہرے میں استنبول کے میئر اکرم امام اوگلو، انقرہ کے میئر منصور یاواش بھی موجود تھے۔ مالٹیپ اسکوائر میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ جمع تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

عرب لیگ کا شام کو دوبارہ عرب برادری میں شامل کرنے پر اتفاق

حامیوں نے ترکی کے جھنڈے کے ساتھ ساتھ کمال اوگلو کے انتخابی نعرے بھی بلند کیے۔ “میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ بہار دوبارہ آنے والی ہے۔” کا نعرہ گونجتا رہا۔

دوسری جانب ایردوان نے ہفتے کے روز ملک کے وسط میں واقع قیصری میں بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور اپنے حریف سے کہا کہ وہ ان “ریکارڈ” نمبروں پر غور کریں۔ انہوں نے کلیچدار اوگلو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’مسٹر کمال ایک لاکھ 35 ہزار افراد یہاں موجود ہیں۔‘‘ انہوں نے حزب اختلاف پر غداری اور امریکہ کی ماتحتی کا الزام بھی لگایا۔ ایردوان نے کہا کہ ان کی جماعت ملک میں خاندان کے تصور کا دفاع کرتی ہے۔

ترکیہ میں رائے عامہ کے جائزوں میں عام طور پر امیدواروں کی شہرت میں بہت کم فرق ظاہر ہو رہا ہے۔ سرویز میں یہ امکان بھی سامنے آیا ہے کہ ہ 74 سالہ کمال اوگلو ووٹنگ کے دوسرے دور میں ایردوان کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔

اوگلو ایک جامع مہم چلا رہے ہیں۔ اس مہم میں وہ زندگی کی بلند قیمت کے بحران کے حل کا وعدہ کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ترکیہ کے صدر ایردوان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔

کمال اوگلو نے روایتی اقتصادی پالیسیوں، پارلیمانی نظام حکومت اور ایک آزاد عدلیہ کی طرف لوٹنے کا عہد کیا ہے۔ انہوں نے مغرب کے ساتھ کسی حد تک ہموار تعلقات کا عہد بھی کیا۔

کمال اوگلو کے ناقدین کا کہنا ہے کہ کمال اوگلو نے ریپبلکن پیپلز پارٹی کے سربراہ کے طور پر بار بار انتخابی شکست کا سامنا کیا ہے اور ان میں عوام کو متحرک کرنے کے لیے اپنے حریف جیسی صلاحیت کا فقدان ہے ۔ انہوں نے موجودہ صدر کے بعد کے دور کا واضح وژن بھی پیش نہیں کیا ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں مقابلہ شدید ہوگا۔ یہ صدارتی الیکشن نہ صرف ملک کے صدر کے انتخاب کا باعث بنے گا بلکہ یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے تنازعات کو پرسکون کرنے کے لیے انقرہ کے کردار کا تعین بھی کرے گا۔

بہت سے لوگ ایردوان کو شکست دینے کی کمال اوگلو کی صلاحیت کے حوالے سے حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں۔ تاہم بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ صدر میڈیا اور عدالتوں کے اندر اپنے اثر و رسوخ اور انتخابات سے قبل اپنی ریکارڈ سماجی امداد کے باوجود پہلے سے کہیں زیادہ اپنی شکست کے قریب ہیں۔

Related Posts