الیکشن کمیشن اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی متنازعہ ویڈیو، اصل معاملہ کیا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

الیکشن کمیشن اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی متنازعہ ویڈیو، اصل معاملہ کیا ہے؟
الیکشن کمیشن اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی متنازعہ ویڈیو، اصل معاملہ کیا ہے؟

جمہوریت کے ریاستی نظام میں انتخابات سے متعلق سب سے اہم ادارے الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی ایک متنازعہ ویڈیو شیئیر کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ انتخابی اصلاحات کے نام پر عوام سے دھوکا کیا جارہا ہے۔

ایک طرف وفاقی حکومت میں وزیرِ اعظم سے لے کر وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری تک پی ٹی آئی حکومت الیکٹرانک ووٹنگ سمیت انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے پہلے تو ویڈیو شیئر کی اور پھر ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا۔ سوال یہ ہے کہ اس متنازعہ اقدام کا مقصد کیا تھا؟ آئیے واقعے کے تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہیں۔

ویڈیو کس نے بنائی؟ ارشد شریف کا ٹویٹ

مشہورومعروف صحافی اور نجی ٹی وی چینل کے میزبان ارشد شریف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے ویڈیو شیئر اور ڈیلیٹ کیے جانے کے اقدام پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے دراصل معروف صحافی طلعت حسین کا وی لاگ شیئر کیا تھا۔

ارشد شریف نے کہا کہ طلعت حسین نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے فراڈ ہونے کا الزام عائد کیا لیکن کیا الیکشن کمیشن کا ٹویٹ عوام کا شعور اجاگر کرنے کیلئے تھا یا تحریکِ انصاف اور وزیرِ اعظم عمران خان کیلئے؟ کیا الیکشن کمیشن ایک بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین چیک کیے بغیر وفاقی حکومت کی پالیسی کا مخالف بن چکا ہے؟

وفاقی حکومت، سینیٹ انتخابات اور شو آف ہینڈز 

وفاقی حکومت نے سینیٹ انتخابات کیلئے خفیہ ووٹنگ کی بجائے شو آف ہینڈز کا طریقۂ کار منتخب کیا جس پر الیکشن کمیشن کو تحفظات تھے جن کا اظہار نہ ہوسکا۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت معاملے پر صدارتی آرڈیننس لے آئی جس کے بعد کمیشن کھل کر سامنے آیا۔

رواں برس 16 جنوری کے روز الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی مخالفت میں اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا۔ کمیشن نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت منعقد ہوں گے۔ آئین کی دفعہ 59، 219 اور 224 میں سینیٹ الیکشن کا ذکر کیا گیا ہے جس کے تحت سینیٹ انتخابات کا فیصلہ پارلیمنٹ کو کرنے دیا جائے۔

فروری کی 17 تاریخ کو صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ عدالتِ عظمیٰ نے کہا کہ جس جماعت کی سینیٹ میں جتنی نشستیں بنتی ہیں، اتنی نہ ملیں اور کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کر نشستیں جیتے، اس سے سسٹم تباہ ہوسکتا ہے۔

آگے چل کر 18 فروری کے روز الیکشن کمیشن نے پی ڈی ایم امیدوار یوسف رضا گیلانی کے کاغذاتِ نامزدگی منظور کر لیے جبکہ وفاقی حکومت نے اس پر اعتراض اٹھایا تھا۔

سپریم کورٹ سے صدارتی ریفرنس پر رائے لی گئی تو عدالتِ عظمیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہی سینیٹ انتخابات کا فیصلہ کرسکتا ہے، تاہم وہ آئین کے تحت ہونے چاہئیں۔  یکم مارچ کو اُس وقت کے وزیرِ اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھائے۔

اسی روز یعنی یکم مارچ کو سپریم کورٹ کی رائے سامنے آئی تھی۔ شبلی فراز نے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالتی فیصلے کی روشنی میں انتخابی اصلاحات عمل میں لائے۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت خفیہ رائے شماری سے ہوں گے۔

الیکشن کمیشن  کا غیر متوقع ردِ عمل اور وزیرِ اعظم کا بیان 

اگلے روز 2 مارچ کو الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کی رائے پر روح کے مطابق عمل ہوگا۔ سینیٹ انتخابات خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوں گے۔ سینیٹ الیکشن میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر کمیٹی قائم کردی گئی۔

ٹیکنالوجی کے استعمال سے مراد الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سمیت دیگر اصلاحات تھیں تاہم الیکشن کمیشن نے رواں برس کے سینیٹ انتخابات کی بجائے معاملہ آئندہ کے انتخابات پر ڈالتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں آئندہ انتخابات میں استعمال کی جائیں گی۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے 4 مارچ کے روز قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں گزشتہ 30 سے 40 سال سے پیسہ چل رہا ہے، سینیٹر بننے کے خواہش مند افراد اراکین خرید لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ملک میں جمہوریت کے نظام کو نقصان پہنچایا۔ اپوزیشن جماعتوں نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرکے بھی بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ 

کمیشن کا جوابی واراور حکومت کا ردِ عمل

کسی بھی ملکی ادارے سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ وقت کے وزیرِ اعظم کے بیان پر ردِ عمل دے سکتا ہے تاہم الیکشن کمیشن نے ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ اقدام اٹھایا۔

اپنے خلاف بیان سامنے آنے کے بعد اگلے ہی روز 5 مارچ کو الیکشن کمیشن نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اداروں کو کام کرنے دیا جائے، ہم پہلے کسی دباؤ میں آئے تھے اور نہ ہی آئندہ آئیں گے۔ ہمیں عمران خان کے بیان سے دکھ ہوا ہے۔ہم پر کیچڑ نہ اچھالا جائے۔

چیف الیکشن کمشنر کی زیرصدارت اجلاس کے بعد یہ اعلامیہ جاری ہوا تھا جس میں کہا گیا کہ اگر وزیرِ اعظم کو کوئی اعتراض ہے تو آئینی راستہ اختیار کیا جائے، کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

وفاقی حکومت نے 15 مارچ کے روز الیکشن کمیشن کے حکام سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔ شبلی فراز اور فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کی۔ وزیرِ تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ الیکشن کمیشن ناکام ہوچکا، غیر جانبدار امپائر نہیں بن پایا، اس لیے تمام اراکینِ الیکشن کمیشن کو مستعفی ہوجانا چاہئے۔

اصل معاملہ جواب الجواب

ہوا کچھ یوں کہ الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ وفاقی حکومت نے تو کردیا لیکن الیکشن کمیشن یہی مطالبہ وزیرِ اعظم کے حق میں دہرا کر اپنا غصہ ٹھنڈا نہیں کر پایا اور کمیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے بھی خلاف تھا جو شاید وفاقی حکومت کو دکھانا مقصود ہو۔

اس لیے یہ کہنا تو بے حد آسان ہے کہ ویڈیو شیئر کرکے الیکشن کمیشن نے جواب الجواب جمع کرادیا، تاہم بعد ازاں یہ ویڈیو ڈیلیٹ بھی کردی گئی۔ اسے کیا کہا جائے؟ تو اس کا مختصر سا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اپنی حدودوقیود معلوم ہیں، اس لیے مختصر اور اسمارٹ ردِ عمل کا فیصلہ کیا گیا جس سے سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ 

Related Posts