معاشی اور اقتصادی قاتل

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جان پرکنز کی کتاب ” معاشی قاتل کے اعترافات” دنیا میں متاثر کن کتابوں میں سے ایک ہے ۔ میں نے اس کتاب کو تقریباً 10 سال قبل پڑھا تھا اور اب اس کے تازہ ترین ایڈیشن کو دوبارہ پڑھا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر مجھے اس بات کے جاننے کی دلچسپی پیدا ہوئی کہ کس طرح دنیا کے طاقتور ممالک دوسرے غریب ممالک کو اپنا مقروض رکھتے ہیں، اور کیا پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہے۔

معاشی قاتل کون ہے؟ جان پرکنز کے مطابق ای ایچ ایم کے پاس انتہائی پیشہ ور معاشی ماہرین ہیں جو بڑی بڑی تنخواہیں لے کر کھربوں ڈالرز سے دنیا بھر کے ممالک کو دھوکہ دیتے ہیں۔ وہ ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف ، یو ایس ایڈ ، اور دیگر ’امدادی‘ تنظیموں اور بڑی کارپوریشنوں کے ذخائر اور وسائل پر قابو رکھتے ہوئے دولت کو چند خاندانوں تک محدود رکھتے ہیں۔ ان کے ہتھیاروں میں جعلی مالی رپورٹیں ، دھاندلی والے انتخابات ، تنخواہیں ، بھتہ خوری ، اور یہاں تک کہ قتل شامل ہیں۔ وہ سلطنت کی طرح پرانا کھیل کھیلتے ہیں ، لیکن عالمگیریت کے اس دور میں ایک نے نئی خوفناک جہت اپنا کر سامنے آئے ہیں۔

جان پرکنز تین دہائیوں تک معاشی قاتل کے طور پر کام کرتا رہا تھا اب وہ پوری دنیا میں اس بات کا لیکچر دے رہا ہے کہ کس طرح امریکا دنیا کے نظام پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ امریکا دنیا کے تمام بااثر افراد کو ایک وسیع نیٹ ورک کا حصہ بننے کی ترغیب دیتے ہیں جو امریکی تجارتی مفادات کو فروغ دیتے ہیں۔ آخر میں ، یہ ممالک قرض کے جال میں جکڑتے چلے جاتے ہیں، امریکا ان ممالک کے رہنماؤں کو سیاسی ، معاشی یا فوجی ضروریات پوری کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں سیاسی رہنما اپنی حیثیت کو تقویت دینے کے لیے مختلف ترقیاتی منصوبے شروع کرتے ہیں، جبکہ امریکہ میں مقیم انجینئرنگ اور تعمیرات کے ماہرین دولت مند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر کسی موقع پر یہ معاشی قاتل ناکام ہو جائیں تو ان کی جگہ “جیکال” میدان میں آجاتے ہیں اور اگر وہ بھی ناکام ہو جائیں تو فوج کو اقتدار پر پر قبضے کی ترغیب دی جاتی ہے جس کی ایک مثال عراق ہے۔

جان پرکنز سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ہم معاشی قاتل یا ہٹ مین کی شناخت کیسے کر سکتے ہیں؟ کیوں کہ دنیا یکسر تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب یہ لوگ خوش بختی کے لقب سے مالامال ہیں ، اور اپنے مفادات کو فروغ دینے کے عالمی کارپوریشنز کے رستوں پر چل رہے ہیں۔ ہم نادانستہ طور پر اس پیچیدہ نظام کا حصہ ہیں۔ ان عالمی مالیاتی اداروں اور کارپوریشنوں نے موجودہ جیو سیاسی اور معاشی نظام کو ناکام بنا دیا ہے۔ ہم ان سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ وہ ان پر ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں لیکن ہم آہستہ آہستہ ان کے رویوں اور اہداف کو تبدیل کر سکتے ہیں جو ان کمپنیوں کا انتظام کرتے ہیں۔

کالج کے ایام میں ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ کارپوریشن کا بنیادی مقصد منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہے۔ تاہم ، یہ قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانا اور قرض اور مادہ پرستی کو فروغ دینے کے لیے بہت زیادہ ماحولیاتی اور معاشرتی اخراجات بڑھاوا دیتےہیں۔ پرکنز کا خیال ہے کہ موجودہ معاشی نظام اب مزید برقرار نہیں رہ سکتا اور وہ تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس کے بجائے اب ہمیں اس نظام کی ضرورت ہے جو ہماری دنیا اور آنے والی نسلوں کے لیے فائدہ مند ہو۔

جان پرکنز نے اپنا زیادہ تر وقت لاطینی اور جنوبی امریکہ میں کام کرتے ہوئے گزارہ تھا، لیکن انہوں نے متعدد مثالیں دی ہیں کہ معاشی قاتل یا (ہٹ مین) نے دوسرے ممالک میں کیسے کام کیا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ایکواڈور اور پاناما کے صدور کو حادثات کی صورت میں قتل کیا گیا کیونکہ انہوں نے اس نظام کی مخالفت کی تھی۔ کس طرح شیورون نے مبالغہ آمیز رپورٹ دے کر انڈونیشیا کے تیل کے وسیع وسائل پر قابو پالیا کہ یہ خطہ غیر معمولی معاشی نمو کا مظاہرہ کرے گا۔

انہوں نے بیان کیا کہ کس طرح سعودیہ کے حکمرانوں نے اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لئے سیاسی اور حتیٰ کہ  فوجی مدد کے بدلے میں تیل کی سپلائی برقرار رکھنے کے لئے امریکہ سے معاہدہ کرکے ایک جدید صنعتی ملک بن گیا۔ اور کس طرح عراق پر حملہ ہوا کیوں کہ صدام حسین ، جس کے بلاشبہ بے گناہوں کے خون سے لتھڑے ہوئے تھے مگر انہوں نے پیٹرول کے بدلے ڈالرز کو قبول نہیں کیا ، یہ نوآبادیاتی امریکی ظلم کی سب سے سچی کہانی ہے۔

کتاب پڑھنے کے بعد ، مجھے حیرت ہوئی کہ کیا معاشی قاتل (ہٹ مین) بھی پاکستان میں سرگرم ہیں؟ ہماری آئی ایم ایف کے ساتھ لمبی تاریخ ہے اور متعدد مواقع پر اسے بیل آؤٹ ملا ہے۔ ہمارے بیرونی قرضے کی مالیت 116 ارب ڈالرز سے تجاوز کر گئی جسے ہم کبھی بھی ادا نہیں کرسکیں گے۔ . اور مشیر اور تجزیہ کار جیسے عنوانات رکھنے والے ماہرین اکثر ہماری معاشی پالیسی کو کس طرح چلاتے ہیں۔ ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ڈیموں ، سڑکوں اور شاہراہوں جیسے ترقیاتی منصوبوں کے لئے مالی اعانت فراہم کررہے ہیں۔ بہت سے سالوں کے لئے تاخیر کا شکار ہیں اور مشکل سے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ سیاستدان اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے ان منصوبوں کے آغاز پر فخر کرتے ہیں۔

جان پرکنز نے اپنی کتاب جن نکات کا ذکر کیا ہے ان تمام پر پاکستان درجہ بدرجہ عمل کرتا جارہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم ہمیشہ کے لئے مقروض رہیں گے اور ان مذموم اور جبری تکنیکوں کا شکار رہیں گے؟ کیا ہم کبھی ترقی یافتہ قوم بن پائیں گے؟ اس سے ایک نیا تناظر پیش کیا گیا ہے کہ ہم کس طرح اس نظام میں تبدیلی لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں جو سب کے لئے مساوات اور خوشحالی کو یقینی بنائے۔

Related Posts