لاہور:انسداد منشیات کی خصوصی عدالت میں جج کی تعیناتی نہ ہونے کے باعث منشیات اسمگلنگ کیس میں راناثناءاللہ اور دیگر پر فردجرم عائد نہ ہو سکی۔
ڈیوٹی جج خالد بشیر نے سماعت کی ۔ رانا ثنا اللہ خان اور دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے اور حاضری مکمل کی۔ انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے جج کی تعیناتی نہ ہونے کے باعث کیس میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی اور مزید سماعت31 جولائی تک ملتوی کر دی گئی ۔
عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ اس ملک کو خراب کرنے کے لیے عمران کا ڈرامہ 2014 میں کنٹینر سے شروع ہوا، حکومت نے سوائے سیاسی مخالفین کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنانے کے کچھ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ تمام عدالتیں خالی پڑیں ہیں،وزیر قانون فروغ نسیم چاہتے ہیں کہ ہمارے کیسز میں ان کی مرضی کے ججز لگائے جائیں،ایسے ججز ہوں جن کی ان کے ویڈیو زہوں اور انہیں یہ مرضی کے فیصلے لینے کے لئے بلیک میل کریں اور ہمیں سزائیں دلوائیں ۔
راناثناءاللہ نے کہا کہ ارشد ملک مرحوم نے مرنے سے پہلے توبہ کی، وہ جاتی امراء نواز شریف کے گھر گئے اور ان سے معذرت کی کہ میرے اوپر بہت دباؤ تھا۔ رشد ملک کی عدالت سے سزا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی کے بیان کے بعد اب کچھ پوشیدہ نہیں رہا ، احتساب کا ڈرامہ پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہو چکا ہے ،اب اس احتساب کے ڈرامے پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ جب نیب سے کچھ نہیں بنا تو ایف آئی اے کو پیچھے لگا دیا ہے ،اسی طرح ایف آئی اے کو استعمال کیا گیا اورجہانگیر ترین کو این آر او دے کر بجٹ پاس کرانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین کے خلاف بھی انتقامی کارروائی ہو رہی ہے اور ان کی کاروباری ٹرانزیکشن کو بھی کریمنل ٹرانزیکشن ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
انہوں نے شہباز شریف کی ایف آئی اے میں طلبی کے حوالے سے کہا کہ وہ اس حوالے سے اپنے وکلاء کی ٹیم سے مشاورت کر رہے ہیں۔ یہ وہی کیس ہیں جس میں نیب پہلے انکوائری کر چکا ہے اور انہیں چار ماہ جسمانی ریمانڈ پراو رایک سال جیل میں رکھا گیا لیکن نیب کچھ نہیں کر سکا ،اب اس معاملے کو ایف آئی اے میں لے آئے ہیں۔