کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی کی تحقیقاتی لیبارٹری نے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی دوا تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی پروفیسر سعید قریشی کے مطابق کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل کر لی ہے۔ڈاؤ یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم نے کورونا کے صحتیاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈیز سے انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن( آئی وی آئی جی ) تیار کرلی۔
ریسرچ ٹیم کی تیار کردہ آئی وی آئی جی کے ذریعے کورونا متاثرین کا علاج کیا جاسکے گا۔ وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کووِڈ 19 کے خلاف جنگ میں اسے ایک انتہائی اہم پیش رفت قرار دیا ہے جبکہ ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنا لوجی کے پرنسپل پروفیسر شوکت علی ریسرچ ٹیم کے سربراہ ہیں۔
دنیا میں پہلی مرتبہ کورونا کے علاج کےلیے ریسرچ ٹیم نے امیونوگلوبیولن کامؤثر طریقہ اختیار کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے ۔امریکی ادارے ایف ڈی اے سے منظورشد ہ یہ طریقۂ علاج محفوظ اور کورونا کے خلاف انتہائی مؤثر ہے۔
اس طریقہ علاج میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون میں نمو پانے والے اینٹی باڈیز کو علیحدہ کرنے کے بعد شفاف کرکے امیونو گلوبیولن تیار کی جاتی ہے ۔یہ طریقہ علاج (پلازما ،تھراپی ) سے بالکل مختلف ہے۔
واضح رہے کہ ہائپر امیو نو گلوبیولن کے طریقۂ علاج کو امریکا کے وفاقی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے عمومی حالات کےلیے منظور کیا ہے جبکہ بعض ضمنی اثرات کے باعث ہنگامی حالات میں ہی پلازما تھراپی کی اجازت دی جاتی ہے۔
ماہرین نے شبانہ روز محنت کے بعد ہائپر امیو نو گلوبیولن( آ ئی وی آئی جی )تیار کی۔ڈاؤ یونیورسٹی کی ٹیم نے مارچ میں خون کے نمونے اکٹھے کر لیے۔پلازمہ سے اینٹی باڈیزکو کیمیائی طور پر الگ تھلگ کرنے ، صاف شفاف کرنے اور بعد میں الٹرا فلٹر تکنیک کے ذریعے اِن اینٹی باڈیز کو مرتکز کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
طریقۂ علاج کے تحت اینٹی باڈیز سے باقی ناپسندیدہ مواد جن میں بعض وائرس اور بیکٹیریا بھی شامل ہیں انہیں الگ کرکے حتمی پیداوار یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کی جاتی ہے جو پاکستان میں پہلی بار تیار کی گئی ہے جبکہ یہ طریقہ غیرمتحرک مامونیت(پے سو امیونائزیشن) کی ہی ایک قسم ہے۔
مامونیت کے عمل میں مکمل پلازمہ استعمال کرنے کی بجائے اسے شفاف کرکے صرف اینٹی باڈیز ہی لی جاتی ہیں ۔ اس محفوظ اورمؤثر طریقہ کار کو اس سے پہلے بھی بڑے پیمانے پر دنیا میں پھیلنے والے وبائی امراض سارس،مرس،اور ابیولا میں مؤثر طورپر استعمال کیاجاچکاہے۔
دوسری جانب تشنج،انفلوئنزا اور رےبیز کی شفاف اینٹی باڈیز دنیا میں تجارتی سطح پر فروخت کےلیے بھی دستیاب ہیں۔ ریسرچ ٹیم نے کورونا کے صحتیاب مریضوں کی جانب سے کم مقدار میں عطیہ کیے گئے خون کو شفاف کر کے اینٹی باڈیز علیحدہ کیں جو کورونا کو غیر مؤثر کرچکی تھیں۔
لیبارٹری ٹیسٹنگ اور حیوانوں پر اس کا سیفٹی ٹرائل کرکے حاصل ہونے والی ہائپر امیونوگلوبیولن کو کامیابی کے ساتھ تجرباتی بنیادوں پر انجیکشن کی شیشیوں (وائلز) میں محفوظ کرلیا گیا ہے جبکہ پروفیسرمحمد سعید قریشی نے معالجین کو ریسرچ ٹیم کے ساتھ مل کرعلاج کے ٹرائل کی حکمت عملی وضع کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔
مشترکہ ٹیم کے دیگر اراکین میں ڈاکٹر شوبھا لکشمی، سید منیب الدین، میر راشد علی، عائشہ علی، مجتبیٰ خان، فاطمہ انجم اور ڈاکٹر صہیب توحید شامل ہیں۔یہ کامیابی کورونا سے ہونے والے جانی نقصان کو روکنے کے لیے بین الاقوامی طور پر کی جانے والی کوششوں میں ایک اہم قدم ہے۔
ایک ہفتہ قبل ہی دنیا کی چھ بڑی ویکسین بنانے والی کمپنیوں نے اس عمل کو شروع کرنے کے لیے اشتراک کا اعلان کیا تاہم ڈاؤ یونیورسٹی نے مقامی کورونا وائرس کی قسم کے خلاف انٹراوینس امیونوگلوبیولن تیار کرکے اس عمل میں سبقت حاصل کر لی ہے۔
حالیہ دنوں کی ریسرچ نے مقامی کورونا وائرس کی قسم میں کچھ جینیاتی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایسی صورت میں مقامی وائرس کے خلاف بنائی گئی آئی وی آئی جی بہت مؤثر اور مفید ثابت ہوگی۔
دوا کی تیاری کیلئے ڈاؤ یونیورسٹی نےوائرس کا جینیاتی سیکوینس معلوم کیا۔انسانی جینز میں ایسی تبدیلیوں کا پتہ چلایا جو کورونا وائرس کے خلاف مزاحمت فراہم کرسکتی ہیں جس کے بعد صحتیاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈی سے انٹرا وینس امینوگلوبیولن تیار کی گئی۔