کراچی: پاکستان میں گدھوں کی قسمت جاگ گئی لیکن صرف کھال کی حد تک! لاہوری قورمے کے بعد اب کراچی والوں پر بھی “گدھا گوشت” کی مہربانی ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے جب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے کراچی پورٹ پر کارروائی کرتے ہوئے 14 ہزار گدھوں کی کھالوں کی چین اسمگلنگ ناکام بنادی۔
ایف بی آر حکام کے مطابق مشتبہ برآمدی سامان کی تلاشی کے دوران چمڑے کی مصنوعات ظاہر کیے گئے 285 پارسلز کھولے گئے، تو اندر سے چمڑے کی جیکٹس، بیلٹس یا بیگز نہیں بلکہ 14 ہزار گدھوں کی کھالیں برآمد ہوئیں۔
ترجمان ایف بی آر کے مطابق ایکسپورٹ پالیسی کے تحت گدھے کی کھال کی برآمد پر پابندی ہے، جس کی صریح خلاف ورزی کی جا رہی تھی۔
اب عوامی سطح پر وہ سوال شدت اختیار کر گیا ہے جس کا جواب کوئی ادارہ نہیں دے رہا،اگر 14 ہزار گدھوں کی کھالیں پکڑی گئیں، تو اُن گدھوں کا گوشت کہاں گیا؟
کیا وہ گوشت کراچی کی قصائی منڈیوں میں قیمہ بن کر فروخت ہو چکا؟ یا “قورمہ، بریانی، تکے یا نہاری” کی صورت میں عوامی پیٹ کا حصہ بن چکا؟ یا پھر کہیں یہ غیر علانیہ گدھا خور قوم بنانے کی سازش تو نہیں؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں گدھے کے گوشت کی خبریں سامنے آئی ہوں۔ ماضی میں لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں گدھوں کو ذبح کرکے ان کا گوشت فروخت کرنے کے واقعات منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ لیکن اب یہ معاملہ سندھ کے معاشی مرکز تک جا پہنچا ہے، جہاں کھال کی اسمگلنگ تو پکڑی گئی، مگر گوشت کا کچھ اتا پتا نہیں۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ گدھے کی کھال عالمی منڈی میں قیمتی سمجھی جاتی ہے، خاص طور پر چینی جڑی بوٹیوں اور روایتی طب میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لیے اسمگلر صرف کھال کے پیچھے بھاگتے ہیں، اور گوشت کو کسی “کام کی چیز” سمجھ کر ادھر ہی نپٹا دیتے ہیں ممکنہ طور پر شہریوں کے پلیٹ میں۔
ایف بی آر نے تو اپنی کارروائی مکمل کر لی، لیکن اب ذمے داری دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ جاننے کی کوشش کریں کہ 14 ہزار گدھوں کے اجزاء کہاں استعمال ہوئے۔ کیا واقعی ہم میں سے کوئی نادانستہ طور پر گدھا خور بن چکا ہے؟
حالیہ واقعات نے عوام کو خبردار کر دیا ہے کہ ہوٹل یا قصاب سے خریدتے وقت صرف قیمت ہی نہ دیکھیں، بلکہ پوچھیں بھی کہ ’’یہ بیف ہے یا کوئی ’غیر بیف‘؟‘‘