مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران روئی کے بھاؤ میں مندی کے بعد استحکام رہا کوالٹی کے مطابق روئی کا بھاؤ چل رہا تھا اچھی کوالٹی کی روئی اور ہلکی روئی میں فی من تقریباً 2000 روپے کا فرق دیکھاگیا اچھی کوالٹی کی روئی کا بھاؤ فی من 18500 روپے جبکہ ہلکی کوالٹی کی روئی کا بھاؤ فی من 16000 تا 16500 روپے چل رہا تھا اسی طرح پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 6000 تا 8500 روپے رہا۔ مارکیٹ میں کاروباری حجم نسبتاً کم رہا بہرحال کئی ملز اپنی ضرورت کے مطابق روئی کی محتاط خریداری کر رہے ہیں۔
بارشوں اور سفید مکھی اور دیگر کیڑوں نے فصل کو نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے کپاس کی پیداوار اور کوالٹی متاثر ہوئی ہے حکومت نے کپاس کی پیداوار کا حدف ایک کروڑ 27 لاکھ 70 ہزار گانٹھوں کا مقرر کیا تھا حکومت کے متعلقہ اداروں نے فصل میں اضافہ کرنے کی کاوشیں کی لیکن ستمبر کا مہینہ جسے کپاس کی فصل کے لئے ستمگر سمجھا جاتا ہے اس میں کپاس کی فصل پر سفید مکھی، ملی بگ، گلابی سنڈی وغیرہ کیڑے حملہ کرتے ہیں یہ عمل گزشتہ کئی سالوں سے چل رہا ہے لیکن متعلقہ ادارے لگتا ہے اس معاملے میں غفلت برتے ہیں کہا جاتا ہے کہ موسمی حالات تپش میں غیر معمولی اضافہ کی وجہ سے فصل ہر سال متاثر ہوئی ہے اس کے تدارک کے لئے کوئی حکمت عملی تیار کرنی چاہئے۔
کپاس کی فصل کا ہدف ایک کروڑ 27 لاکھ 70 ہزار گانٹھوں سے فی الحال 37 فیصد کم ہوکر تقریباً 90 لاکھ گانٹھوں کے ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔
دوسری جانب مقامی و بین الاقوامی مارکیٹوں میں سرد بازاری کی وجہ سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمداد میں بھی مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے علاواں ازیں مقامی طور پر بھی ڈالرز کی گراوٹ توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ غیر معمولی سود شدید مالی بحران وغیرہ بھی ٹیکسائل سیکٹر پر اثرانداز ہو رہے ہے۔
صوبہ سندھ میں روئی کا فی من بھاؤ کوالٹی کے مطابق 16500 تا 18500 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 6000 تا 8200 روپے صوبہ پنجاب میں روئی کا بھاؤ 17500 تا 18500 روپے پھٹی کا بھاؤ 7000 تا 8800 روپے صوبہ بلوچستان میں روئی کا بھاؤ 16800 تا 17200 روپے پھٹی کا بھاؤ 7800 تا 9200 روپے۔ بنولہ کھل اور تیل کے بھاؤ میں بھی سست بازاری رہی۔
کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 200 روپے کی کمی کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 18000 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔
کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹ میں مجموعی طور پر ملا جلا رجحان رہا نیویارک کاٹن کے وعدے کا بھاؤ فی پاؤنڈ 87.50 امریکن سینٹ رہا۔ USDA کی ہفتہ وار برآمدی اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال 23-2024 کیلئے 55 ہزار 300 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔
ویت نام 15 ہزار 700 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔
چین 13 ہزار 100 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔
انڈونیشیا 5 ہزار 400 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔
سال 25-2024 کیلئے 11 ہزار گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔
ملائيشيا 8 ہزار 800 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔
تھائی لینڈ 2 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔
برآمدات 1 لاکھ 59 ہزار 400 گانٹھوں کی ہوئی۔
چین 73 ہزار 300 گانٹھیں درآمد کرکے سرفہرست رہا۔
بنگلہ دیش 18 ہزار 300 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔
پاکستان 15 ہزار گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔
دریں اثنا کراس سبسڈی کے جاری رہنے کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (APTMA) نے RLNG/گیس کی سپلائی اور قیمتوں کے تعین پر بات کرنے کے لیے، خاص طور پر موسم سرما کے مہینوں کے لیے نگران وزرائے خزانہ اور توانائی سے وقت مانگا ہے۔
دونوں نگراں وزراء کو لکھے گئے خطوط میں، اپٹما کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شاہد ستار نے کہا ہے کہ حالیہ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ معیشت کے غیر پیداواری شعبوں کو کراس سبسڈیز کو برآمدی شعبے کے لیے بجلی کے نرخوں میں شامل کرنا جاری رکھا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ “ہم اس بارے میں اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں، کیونکہ یہ ایک مضبوط اقتصادی بحالی کے حصول کے ہمارے مشترکہ مقصد کے خلاف ہے۔”
اپٹما کے مطابق، ممالک برآمدی آرڈرز کے لیے قیمت اور پیسے کی قدر کی بنیاد پر مقابلہ کرتے ہیں، اور دنیا بھر میں برآمدی شعبے مختلف قسم کے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کے تابع نہیں ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ کراس سبسڈیز اور پھنسے ہوئے اخراجات جیسے ٹیکس اور برآمد کنندگان کے لیے بجلی کے نرخوں میں ان کو شامل کرنا برآمدات کو غیر مسابقتی بناتا ہے، جس سے اہم اقتصادی اشاریے بگڑتے ہیں، ادائیگیوں کا توازن اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔
۔APTMA نے برآمد کنندگان کے لیے ہائی پاور ٹیرف کے معاشی مضمرات اور ممکنہ حل کی تفصیلات بھی شیئر کی ہیں۔
“اس وقت صنعت کی توانائی کی 50 فیصد سے زیادہ ضروریات آر ایل این جی/گیس کے ذریعے پوری کی جاتی ہیں۔ ہائی پاور ٹیرف اور RLNG/گیس کی دستیابی اور قیمتوں کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر، یہ برآمد کنندگان کے لیے آرڈر بک کرنا مشکل بنا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صنعت کو RLNG/گیس کی فراہمی اور قیمتوں کے بارے میں وضاحت کی ضرورت ہے، خاص طور پر آنے والے موسم سرما کے مہینوں کے لیے کیونکہ یہ مغربی مارکیٹوں میں کپڑوں کی مانگ میں اضافے کے ساتھ موافق ہے۔
برآمدات کے لیے کیس کی التجا کرنے کے لیے، ملک بھر کے معروف کاروباری گھرانوں اور ٹیکسٹائل ویلیو چین سے تعلق رکھنے والے صنعتکاروں کا ایک وفد 5 اکتوبر 2023 کو دونوں وزراء سے ملاقات کا ارادہ رکھتا ہے۔
علاوہ ازیں جنرز ٹیکس بچانے کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کو کم ادائیگی کرنے کے لیے کچی کپاس کی آمد کی کم اطلاع دینے کا سہارا لے رہے ہیں، پنجاب کے زرعی حکام نے فصل کی پیداوار کو خود ریکارڈ کرنے اور ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ) اب تک صوبے میں جننگ فیکٹریوں میں کپاس کی آمد گزشتہ سال کے اعداد و شمار سے 100 فیصد زیادہ ہے۔
پنجاب کراپ رپورٹنگ سروس کے مطابق، رواں سال ستمبر کے وسط تک صوبے میں کپاس کی پیداوار تقریباً 2.2 ملین گانٹھوں سے زیادہ تھی۔
تاہم جننگ فیکٹریوں کی جانب سے کم دستاویزی/انڈر رپورٹنگ کی رپورٹس کے تناظر میں، سیکریٹری زراعت افتخار سوہو نے ایکسٹینشن ونگ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اعدادوشمار کے لیے جنرز پر انحصار کرنے کی بجائے کپاس کی آمد کا ریکارڈ اپنے طور پر رکھیں۔
کچھ کپاس کے کاشتکاروں نے الزام لگایا کہ جنرز نے انہیں 8,500 روپے فی 40 سے بھی کم ادائیگی کی، جو کہ پنجاب حکومت کی جانب سے کپاس کی بوائی کے سیزن کے آغاز پر کم از کم امدادی قیمت کا وعدہ کیا گیا تھا۔
منڈی میں کپاس کی آمد کے بعد قیمتیں مستحکم رہیں اور کسانوں کو ابتدائی طور پر 8500 سے 9200 روپے کے درمیان نرخ ملے۔ تاہم، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں کمی کے ساتھ، روئی کے نرخ 7,800 سے 8,000 روپے کے درمیان دوبارہ ایڈجسٹ کیے گئے۔
محکمہ زراعت پنجاب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کپاس کی منڈی کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کاشتکار برادری کو کم از کم امدادی قیمت کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے ٹی سی پی کو فوری طور پر آن بورڈ لایا جائے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ محکمہ کے تمام افسران اور عملہ رواں سال کپاس کی پیداوار کا ہدف حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ صوبے میں کپاس کی بحالی کے لیے محکمے کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا شمار کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ کاشتکاروں کو کپاس کے بیج کی منظور شدہ اقسام رعایتی نرخوں پر فراہم کی گئیں اور پوٹاش اور فاسفورس کھادوں پر اربوں روپے کی سبسڈی فراہم کی گئی۔
نتیجتاً اس سال 4.2 ملین ایکڑ سے زائد رقبہ کپاس کی کاشت میں لایا گیا۔ کپاس کے ماہرین کے گروپ موسمی حالات اور کیڑوں کی پوزیشنوں کے مطابق تکنیکی مشورے تیار کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، اور یہ مشورہ کسانوں کی دہلیز پر ایکسٹینشن سروس کے ذریعے کسانوں تک پہنچایا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ کاشتکاروں میں صحت مند مسابقت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے کپاس کے پیداواری مقابلوں کا بھی اعلان کیا گیا تھا اور تحصیل کی سطح پر سہولتی مراکز قائم کیے گئے تھے جہاں سے کپاس کے کاشتکار معیاری کیڑے مار ادویات رعایتی نرخوں پر حاصل کر سکتے تھے۔
جنوبی پنجاب میں کپاس کی پٹی میں سفید مکھی کی افزائش پر قابو پانے کے لیے 80 ہزار ایکڑ رقبے پر فوج کے فراہم کردہ ڈرونز اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے معیاری کیڑے مار ادویات کا سپرے کیا گیا۔ بڑے پیمانے پر کیڑوں کے انتظام کی مہم اور موسم میں تبدیلی کا کپاس کی کھڑی فصل پر مثبت اثر پڑا۔
مزید پڑھیں:اسلامی مالیات کے لیے اخلاقی اصولوں پر مبنی کِرِپٹو اِیکو سسٹم کا قیام کیوں ضروری ہے؟
دریں اثنا، محکمہ کے تمام فیلڈ سٹاف بالخصوص جنوبی پنجاب میں، فصلوں کے موثر انتظام کے لیے کسانوں کے ساتھ آخر تک مصروف رہنے کے لیے پوری طرح متحرک ہو گئے ہیں تاکہ کپاس کی زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکے۔
دریں اثنا کپاس پیدا کرنے والے بیشتر ممالک میں 7 اکتوبر کو ورلڈ کاٹن ڈے منعقد کیا جاۓ گا پاکستان میں PCGA – KCA وغیرہ بھی شامل ہونگے