عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ایمل ولی نے الزام لگایا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں کتے، گدھے اور مینڈک کا گوشت فروخت ہو رہا ہے جس سے خوراک کی حفاظت کے حوالے سے سنجیدہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی سلامتی کے اجلاس کے دوران ایمل ولی نے دعویٰ کیا کہ مارکیٹ میں غیر معیاری اور مضر صحت مصنوعات جن میں پلاسٹک کا چاول اور ملاوٹ شدہ دودھ شامل ہیں، عام دستیاب ہیں، جو عوامی صحت کے لیے خطرہ ہیں۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ملک میں دودھ کی پیداوار قومی استعمال کا صرف 22 فیصد ہے، جبکہ باقی 78 فیصد کیمیکلی ملاوٹ شدہ سفید مائع ہے۔ملک میں استعمال ہونے والا دودھ زیادہ تر مصنوعی ہے اور خطرناک کیمیکلز سے بھرپور ہے۔
کورونا کی طرح چین سے نئی وباء پھوٹ پڑی، علامات کیا، پاکستان کو کتنا خطرہ؟
سینیٹر دینش کمار نے ان خدشات کی بازگشت کرتے ہوئے عوامی آبادی کے لیے کھانے کے چاول کے معیار کی تصدیق کے نظام کی عدم موجودگی پر تشویش ظاہر کی۔ “یہ معلوم کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے کہ لوگ جو چاول کھا رہے ہیں وہ محفوظ ہے یا نہیں” انہوں نے کہا اور ریگولیٹری اصلاحات کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
ان انکشافات کے جواب میں کمیٹی نے خوراک کی سلامتی کے مسائل سے نمٹنے اور خوراک کے معیار کے اصولوں پر سخت چیک کو یقینی بنانے کے لیے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی۔
یہ پہلی بار نہیں ہے جب ایسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ 2018 میں اس وقت کے وزیر داخلہ شہریار آفریدی نے انکشاف کیا تھا کہ اسلام آباد کے بعض حصوں میں گدھے، کتے اور یہاں تک کہ سور کا گوشت فروخت ہو رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خوراک کی سلامتی کے قوانین کی سخت نگرانی اور نفاذ کی کمی نے ایسے طریقوں کو جاری رہنے کی اجازت دی ہے۔