صوبہ سندھ کے ضلع خیر پور میں 1 روز کے دوران 7 بچیوں کے ساتھ ساتھ 18 شہریوں کو کتوں نے زخمی کرکے ہسپتال پہنچا دیا اور افسوسناک بات یہ تھی کہ زیادہ تر زخمی ریبیز ویکسین حاصل نہ کرسکے۔
یہ اپنی نوعیت کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات ہر روز سندھ بھر میں پیش آتے رہتے ہیں اور ملک کے سب سے بڑے شہر اور صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت سندھ بھر کے متعدد شہروں کا یہی حال ہے۔
سوال یہ ہے کہ صوبہ سندھ میں کتوں کی بہتات پر قابو کیوں نہیں پایا جاتا؟ سندھ حکومت کتا مار مہم کیوں نہیں چلاتی اور شہریوں کی جان کو لاحق مسلسل خطرات کا کوئی تدارک کیوں تلاش نہیں کیا جاتا۔ آئیے تمام تر سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کراچی کی صورتحال
سن 2018ء میں 12 اور 13 ستمبر کے درمیان کراچی میں سگ گزیدگی کے واقعات میں اچانک اضافہ ہوا اور 24 گھنٹوں کے دوران 62 افراد کتے کے کاٹے کا شکار ہوئے۔ سب سے زیادہ یہ واقعات کراچی کے علاقے ملیر ماڈل کالونی میں پیش آئے۔
کراچی کے علاقے ناظم آباد، محمود آباد، کلفٹن، قائد آباد، لانڈھی، کورنگی، ایف بی ایریا، ایف سی ایریا اور گلشنِ اقبال سمیت جس گلی کوچے کا رخ کیجئے ہر طرف آوارہ کتوں کی بہتات نظر آتی ہے جس پر قابو پانے کیلئے شہری انتظامیہ یا سندھ حکومت کچھ کرتی نظر نہیں آتی۔
ستمبر2019ء کے دوران لاڑکانہ میں کتے کے کاٹے سے ایک بچہ وفات پا گیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ بہ ماں کی گود میں لمبی لمبی آخری سانسیں لیتے ہوئے دم توڑ گیا جس سے عوام بے حد دلبرداشتہ ہوئے اور کتا مار مہم کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
اکتوبر 2019ء میں پی ٹی آئی کے رکنِ سندھ اسمبلی ڈاکٹر عمران علی شاہ کے بیان کے مطابق کتے کے کاٹے کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس 15 اکتوبر کو 1 ہی کتے کے کاٹے سے 18 سے زائد افراد لیاقت آباد میں زخمی ہوئے۔ سرکاری ہسپتالوں میں یومیہ 100 سے زائد سگ گزیدگی کے کیسز درج ہوتے ہیں۔
تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق رواں برس کراچی میں 22 ہزار 296 افراد کتوں کے کاٹے سے زخمی جبکہ 15 جاں بحق ہوئے۔ بعض کیسز میں کتے کے کاٹے سے زخمی ہونے والے افراد رپورٹ نہیں کرتے، اس لیے کتوں کے کاٹے سے ہونے والا نقصان یہاں بتائے گئے اعدادوشمار سے کہیں زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔
ریبیز کیا ہے؟
جب کسی انسان کو ایک کتا کاٹتا ہے تو اس کے جسم سے ریبیز نامی وائرس متاثرہ شخص کے جسم میں منتقل ہوجاتا ہے جو اس کی موت کی وجہ بن سکتی ہے۔اس لیے پالتو کتوں کی ویکسینیشن ضرور کرانی چاہئے۔
وائرس ریبیز سے متاثرہ جانوروں میں پایا جاتا ہے جو اکثر و بیشتر کتے ہوتے ہیں۔ وائرس کی روک تھام کیلئے ریبیز ویکسین دی جاتی ہے۔
اگر ریبیز انفیکشن کے اثرات مکمل طور پر نمایاں ہوجائیں تو مرض لاعلاج ہونے کے باعث انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے اور ایسے انسان کو بچایا نہیں جاسکتا۔
عام طور پر ریبیز کے 4 سے 5 انجکشن لگا کر کتے سے لگنے والے انفیکشن کا تدارک کیا جاتا ہے تاہم کتنے انجکشن لگنے چاہئیں، اس کا فیصلہ ڈاکٹر متاثرہ شخص کے وزن اور زخموں کی نوعیت اور حالت دیکھ کر کرتا ہے۔
کاٹنے والی جگہ پر سنسناہٹ محسوس ہوتی ہے، پاگل پن، جنونیت، مدہوشی اور بخار بھی ہوجاتا ہے جسے ریبیز کی نمایاں علامات خیال کیا جاتا ہے۔
اگر کتا کاٹے تو جلد سے جلد سرکاری ہسپتال پہنچ کر علاج کرانا چاہئے کیونکہ نجی ہسپتالوں میں عموماً ریبیز ویکسین نہیں پائی جاتی اور اگر ہسپتال دور ہو تو 10 سے 15 منٹ تک صابن اور بہتے ہوئے پانی سے زخم دھونا چاہئے تاہم پٹی باندھنے سے گریز بہتر ہے۔
بعض لوگ زخم پر لال مرچ اور نمک چھڑک کر از خود علاج کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس سے انفیکشن بڑھ سکتا ہے۔ موجودہ دور میں 14 ٹیکوں کی بجائے 1 ماہ کے اندر انر 5 ٹیکوں کے کورس سے ہی کتے کے کاٹے کا علاج ہوسکتا ہے۔
سندھ حکومت کا کردار
وزیرِ صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے گزشتہ برس بیان دیا کہ سرکاری ہسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین کے بارے میں واضح معلومات نہیں دی جاتیں جنہیں ہم نے تنبیہہ جاری کی ہے۔ کتا مار مہم چلانا محکمۂ صحت سندھ کا کام نہیں۔
ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے کہا کہ لوگ خود احتیاط کریں، کچھ ہسپتالوں میں ویکسین نہیں ہوتی جس پر سندھ حکومت کام کر رہی ہے۔ این آئی ایچ سے بھی ویکسینز منگوا لی ہیں۔
گزشتہ برس دسمبر کے دوران کراچی میں 35 ہزار کتوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا جس کیلئے انتظامی اداروں کو 8 کروڑ روپے کے فنڈز بھی جاری کیے گئے تھے۔ 10 ماہ کے دوران سندھ میں 53 ہزار کتے ہلاک ہوئے۔ ہزاروں کتوں کو سکھر، حیدر آباد، لاڑکانہ اور میر پور خاص میں بھی مار دیا گیا۔
ضلع وسطی کراچی میں سندھ حکومت نے گزشتہ برس 21 نومبر کے روز کتوں کو ٹیکے لگانے کی مہم بھی شروع کی جس کا مقصد عوام کو ریبیز کے وائرس سے بچانا تھا، تاہم یہ اقدامات کافی ثابت نہ ہوسکے کیونکہ سگ گزیدگی کے واقعات میں آج کل پھر اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
شریعتِ اسلام کیا کہتی ہے؟
اسلامی شریعت نے کسی جانور کے موذی ہونے اور انسانوں کی بقاء کیلئے خطرہ بننے پر اسے قتل کرنا جائز قرار دیا ہے۔ شہروں میں انسانوں کی آبادی زیادہ ہوتی ہے جہاں کتے زیادہ ہوجائیں تو موذی ہوجاتے ہیں۔
بعض احادیث میں بھی موذی کتوں کو مارنے کا حکم پایا گیا ہے جبکہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ امت کا موذی کتوں کے مارنے پر اجماع ہے۔
سگ گزیدگی روکنے کیلئے واحد حل
سندھ کے مختلف شہروں میں سگ گزیدگی کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں، میر پور خاص اور عمر کوٹ میں بھی کتے کے کاٹے کے واقعات میں رواں ماہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
سول ہسپتال میرپور خاص میں گزشتہ 1 ماہ میں 45 سے زائد زخمی افراد لائے گئے جنہیں کتوں نے کاٹا تھا۔ عمر کوٹ سول ہسپتال میں ہر روز اوسطاً 12 زخمی لائے جاتے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کتوں کے کاٹے کے واقعات پر مقدمات جب بلدیاتی افسران پر درج ہونا شروع ہوئے تو کتا مار مہم میں تیزی دیکھی گئی۔ عدالتی حکم پر جب گزشتہ چند روز سے عمر کوٹ کے 7 یوسی سیکریٹریز کے خلاف مقدمات درج ہونا شروع ہوئے تو کتا مار مہم بھی چلنا شروع ہوگئی۔
میرپور خاص میں بھی بلدیاتی افسران کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے لگیں جس پر آوارہ کتوں کو مارنے کیلئے کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں بھی عوام اِس پالیسی پر چل کر کتوں سے اپنی جانیں محفوظ رکھ سکیں۔