یہ عالم اسلام بالخصوص پاکستانی قوم کیلئے بڑے فخر اور اعزاز کی بات ہے کہ اس کا خلائی مشن آئی کیوب قمر چاند کے مدار میں روانہ کردیا گیا ہے، تاہم خلا میں یہ پاکستان کا پہلا قدم نہیں ہے۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں خلاؤں پر کمندیں ڈالنے میں پاکستان کا دنیا میں کیا مقام ہے؟
سوشل میڈیا پر معروف ایکٹوسٹ اور سائنس رائٹر ضیغم قدیر نے اپنی ایک پوسٹ میں پاکستان کے خلائی مشن کی تاریخ کا مختصر ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل اور جاپان کے بعد پاکستان ایشیا کا تیسرا ملک تھا جس نے خلا میں اپنا مشن بھیجا تھا۔ اس کے ساتھ ہی جنوبی ایشیا کی ہم پہلی اور دنیا میں ہم دسویں نمبر پہ موجود قوم تھے جنہوں نے خلاء میں کوئی Vessel بھیجی تھی۔
ساٹھ کی دہائی میں جب روس نے خلا میں قدم جمانے شروع کئے تو امریکہ بہت پریشان تھا۔ ناسا خلا بارے کم معلومات میں تیزی سے اضافہ کرنا چاہتا تھا۔ اسی دوران صدر ایوب اور امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی ملاقات کے دوران پتا چلا کہ ناسا “اپر اٹما سفئیر” پہ راکٹس کی مدد سے تحقیق کرنے اور ڈیٹا حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔ اس مقصد کے لئے ڈاکٹر عبدالسلام اور طارق مصطفی کو ناسا نے واشنگٹن میں بریفنگ دی اور اس کی معلومات کی بنیاد پہ انہوں نے بعد میں صدر ایوب سے منظوری لیکر اپر اٹماسفئیر کی تحقیق کے لئے ایک ادارہ بنانے کی تجویز دی جس کا نام اسپیس اینڈ اپر اٹماسفئیر ریسرچ کمیشن یا سپارکو رکھا گیا۔
خلاؤں کی تسخیر میں تابناک ماضی
1960 سے 1970 تک کا دورانیہ بہت تابناک رہا۔ اس دوران پاکستان ‘ اسرائیل اور جاپان کے بعد ایشیا کا تیسرا ملک بن گیا تھا جس نے خلا میں اپنا مشن بھیجا تھا۔ اسکے ساتھ ہی جنوبی ایشیا میں پاکستان پہلی اور دنیا میں دسویں نمبر پہ موجود قوم تھی جنہوں نے خلا میں کوئی Vessel بھیجی تھی۔
سپارکو کے مطابق 1960سے لیکر 1970 تک پاکستان نے خلا میں دو سو راکٹ بھیجے۔ رہبر نامی راکٹ 1962 میں خلا میں بھیجا اور رہبر دوئم اس سیریز کا آخری مشن ثابت ہوا۔
اسی مشن کے بعد ناسا نے پاکستان کو کہا تھا کہ “یہ پروگرام خلائی تحقیق اور باہمی مفادات کے لئے ناگزیر ثابت ہوگا۔” اسی دوران اپالو 17 مشن کے خلاء باز کراچی آئے اور انہوں نے سپارکو کے دفتر کا وزٹ بھی کیا اور تو اور روات راولپنڈی میں قائداعظم یونیورسٹی کے تعاون سے ناسا نے ایک آئنوسفیرک سٹیشن بھی بنایا گیا۔
سپارکو کا زوال
ضیغم قدیر کے مطابق 1970 کے بعد جونہی حکومتیں بدلیں تو ملک پہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آگئی۔ بھٹو صاحب نے سپارکو کو ملٹریلائز کردیا جس میں سپارکو کے اعلی عہدوں پہ ریٹائرڈ سپاہی تعینات کردیے گئے اور اسی دوران فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے سپیس مشن کو روک دیا گیا اور سپارکو میں کام کرنے والے سائنسدانوں کو زبردستی KRL اور PAEC میں بھیجنا شروع کردیا گیا اور ان سائنسدانوں کی جگہ پہ ملٹری آفیسرز تعینات ہوگئے۔
اسی دوران انڈیا کی طرف سے بھیجی گئی سیٹلائٹس کے جواب میں پاکستان نے Paksat کو لانچ کیا جس کی وجہ سے آج آپ پاکستان کا ہر ٹی وی چینل دیکھ سکتے ہیں۔
یاد رہے پاک سیٹ لانچ کرنے والے ایڈمنسٹریٹر، سپارکو کے آخری “سویلین ” سائنسدان تھے۔ بقول کچھ سائنسدانوں کے ایک دن صدر ضیا الحق نے سپارکو کے دورے کے بعد اس کے سب فنڈ بند کر دینے کا اعلان کردیا۔ کیوں؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
اس کے بعد چین کی مدد سے PakTAS سیٹلائٹس بھیجی گئی مگر اب تک سپارکو مردہ ادارہ بن چکا تھا۔ اس کی تجدید کے لئے مشن 2040 بھی شروع کیا گیا ہے لیکن ابھی تک یہ مشن بہت پیچھے ہے۔