کیا آپ جانتے ہیں کہ سونگھنے کی حس سے ذائقے کی حس کا کتنا گہرا تعلق ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا آپ جانتے ہیں کہ سونگھنے کی حس سے ذائقے کی حس کا کتنا گہرا تعلق ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ سونگھنے کی حس سے ذائقے کی حس کا کتنا گہرا تعلق ہے؟

سونگھنے اور چکھنے کی حس کے درمیان گہرا تعلق موجود ہے۔ جو لوگ اس قدرتی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں اُن کی زندگی بہت بے کیف ہوجاتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم جو کچھ کھاتے ہیں اُس کے ذائقے کے احساس میں 80 فیصد کردارسونگھنے کی حس ادا کرتی ہے۔ جس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ جو لوگ کسی چیز کی خوشبو نہیں سونگھ سکتے اُن کےاندر ذائقے کی حس بھی ختم ہوجاتی ہے۔

طبی اصطلاح میں ذائقے سے محرومی کو Ageusia کہتے ہیں جبکہ سونگھنے کی حس سے محرومی کوAnosmia کہتے ہیں۔

کسی بھی کھانے کی لذت نہ جاننا انہائی ازیت ناک ہوتا ہے۔ ہمارے منہ میں تقریبا 9 ہزار ایسے اعصابی ریشے(taste buds) ہوتے ہیں۔جن سے چیزوں کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے. لیکن اصل چیز قوت شامہ ہوتی ہے۔

افسوس کے ساتھ جو لوگ سونگھنے کی حس سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ کھانے کا ذائقہ بھی نہیں بتا سکتے تاہم جو چیزیں کھائی جاتی ہیں۔ اُن کے ذائقے کی شناخت میں ان اعصابی ریشوں یعنی (taste buds) کا کردار حیران کن حد تک زیادہ اہم نہیں ہوتا۔ 90 فیصد وہ چیز جسے ہم مزا اور ذائقہ قرار دیتے ہیں وہ دراصل کھانے کی مہک ہوتی ہے۔

عمر کے ساتھ نقصان

شکاگو میں اسمیل اینڈ ٹیسٹ ریسرچ اینڈ ٹریٹمنٹ فاؤنڈیشن کے نیورولوجیکل ڈاکٹر ایلن ہرش کے مطابق؛

”جب ہم نوالے کو منہ میں چباتے ہیں تو اُس کے چھوٹے چھوٹے ریزے ناک کے جوف کے قریب پہنچ جاتے ہیں اور وہاں خوشبو یا مہک کو شناخت کرنے والے Olfactory عصاب اُن کی گرفت کرکے اس سے متعلق پیغام دماغ کو بھیجتے ہیں”۔

ایک افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ کھانے کے ذائقے میں بھی عمر کے ساتھ تبدیلی محسوس ہونے لگتی ہے. ڈاکٹر ہرش کے مطابق ؛
”پیدائش کے بعد سے ہم اپنے olfactory neurons کا ایک فیصد ہر سال ضائع کرجاتے ہیں۔ اسی طرح 30 سال کی عمر تک اتنا نقصان ہوچکا ہوتا ہے کہ سونگھنے کی حس میں اس کی جھلک نظر آنے لگتی ہے”۔

یادداشت سے قریب تعلق

عموماً سونگھنے کی حس کو لوگ اہمیت نہیں دیتے۔ اس سے محرومی کے باعث نہ صرف یہ کہ کھانوں کے ذائقوں سے لطف اندوزی ختم ہوجاتی ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ کوئی بھی جگہ اور کسی بھی جانے پہچانے شخص کی اپنی منفرد دلپزیر خوشبو سے بھی متعلقہ شخص محروم ہوجاتا ہے، تاہم اس حس کا یعنی قوت شامہ کا یاداشت سے بھی قریبی تعلق ہوتا ہے۔

محرومی کے جسمانی اور نفسیاتی اثرات

اس محرومی کے جسمانی اور نفسیاتی اثرات انتہائی تباہ کن اور دوررس ہوتے ہیں۔ سینٹر فاردی اسٹڈی آف اسپنیز کے ڈائریکٹر پروفیسر بیری اسمتھ کہتے ہیں کہ؛

”جو لوگ سونگھنے کی حس سے محروم ہوجاتے ہیں. اُن کی یاسیت، افسردگی نابینا افراد سے بھی زیادہ گہری ہوتی ہے اور وہ نسبتاً زیادہ طویل عرصے اس عالم میں گزارتے ہیں”۔

غذائیت بخش اجزاء کا فقدان

جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسیشن کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق

”سونگھنے اور چکھنے کی حس میں کمی کی وجہ بعض غذائیت بخش اجزاء کا فقدان بھی ہوتا ہے”۔

زنک اور وٹامن B12 کی کمی سے یہ دونوں حسیں کمزور پڑسکتی ہیں لہٰذا ایسی غذاؤں کو کھانا چاہیئے جس میں یہ دونوں موجود ہوں۔

کونسے عوامل ہیں جن کی مدد سے یہ حس بہتر ہوسکتی ہے

گوشت میں یہ غذائیت ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کو غذا کا حصہ بنائیں۔

جرمنی کے محققین نے گلاب کے تیل، لیموں اور لونگ کی خوشبو کو 12 ہفتوں تک بار بار سونگھنے کی ہدایت کی ہے۔ اُن کے مطابق ناک کے اندر موجود Olfactory اعصاب کی کارگردگی ان کی مدد سے بہتر ہوسکتی ہے۔

چنانچہ اس کمی کے آثار جیسے ہی ظاہر ہوں تو فورا کسی اچھے معالج سے رجوع کرنا چاہیئے۔

Related Posts