پی آئی اے پاکستان کی اکلوتی اور مایہ ناز قومی ائیرلائن ہے، اس کا ماضی جس قدر شاندار ہے، پیشہ ورانہ رقابت پر مبنی تمام تر منفی پروپیگنڈوں کے باوجود اس کا حال اتنا ہی تسلی بخش اور مستقبل ترقی، استحکام، تابناکی اور بلند پروازی کے تمام تر امکانات سے بھرپور ہے۔
پی آئی اے اندرون ملک روزانہ 23 اوربیرونِ ملک 30 سے زائد پروازیں چلاتی ہے اور اس کے پَر تین بر اعظموں ایشیا، یورپ اور جنوبی امریکا کی فضاؤں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ پی آئی اے کے اس وسیع فضائی آپریشن میں بوئنگ ٹرپل سیون جیسے طاقتور پرِ پرواز رکھنے والے جدید ترین طیارے بھی شامل ہیں۔
پی آئی اے کے پاس دنیا کی طویل ترین پرواز کا ریکارڈ بھی ہے۔ اس کے کریڈٹ پر عرب امارات کی امارات ایئر لائن اور اتحاد ایئر جیسے فضائی اداروں کو کھڑا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرنے کا کارنامہ ہے، اس شاندار ٹریک ریکارڈ کے باوجود مگر پھر بھی پی آئے اے ہم سب کیلئے اچھی نہیں ہے!
آج پی آئی اے پر اس لیے عوامی سطح پر تنقید اور طنز کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے کہ پی آئی اے کی ایک پرواز موسم کی خرابی کے باعث پی انڈیا چلی گئی۔ یہ تو بھئی ایسا ہی بلا وجہ کا اعتراض ہے جیسے ساس کا بہو پر یہ اعتراض کہ آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہے؟
کیا موسم پر پی آئی اے کا کوئی اختیار ہے؟ اگر ایک قدرتی عامل یعنی موسم کی خرابی کے باعث پی آئی اے کا طیارہ انڈیا کی حدود میں محفوظ چکر کاٹ کر آیا تو اس میں پی آئی اے کی کونسی خرابی، غفلت، کوتاہی یا نا اہلی ہوگئی بھئی؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایسا صرف دنیا میں پہلی اور آخری بار پی آئی اے کی پرواز کے ساتھ ہی ہوا ہے؟ ہمیں جاننا چاہیے اور اپنے رویوں میں کچھ گریس لانا چاہیے کہ خراب موسم میں دنیا بھر کی ایوی ایشن اتھارٹیز اور کنٹرول ٹاورز کو ایسی ناگہانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیا ایسی ہی صورتحال میں انڈیا کے طیارے پاکستان آتے ہیں تو انڈین عوام بھی اپنی ائیرلائن کو بے رحم تنقید کا نشانہ بناتے ہیں؟؟ سوچئے گا!
یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ لاہور ائیرپورٹ پاک بھارت سرحد سے کچھ ہی میل کے فاصلے پر ہے۔ ضرورت پڑنے پر بھارتی جہاز بھی پاکستانی حدود استعمال کرتے ہیں اور ائیر ڈیفنس اور اے ٹی سی سے کلیئرنس حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی حدود میں چلے آتے ہیں۔ ماضی میں جنوری 2002، اگست 2004 اور جنوری 2019 میں ایسے ہی واقعات پیش آچکے ہیں۔ یوں بھارتی طیاروں نے متعدد مرتبہ پاکستانی فضائی حدود میں داخلے کے بعد یہاں لینڈنگ کی ہے۔
جنوری 2023 میں یہ خبر سامنے آئی کہ جدہ میں لینڈنگ کے دوران پی آئی اے کے جہاز کی کھڑکی نکل گئی جبکے ترجمان پی آئی اے کے مطابق طیارے کا شیشہ کسی بیرونی چیز کے لگنے سے ٹوٹا تھا۔ ایسا دنیا بھر کی اعلیٰ سے اعلیٰ ایئر لائنز کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو لیکر ہم اپنی اکلوتی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے خلاف منفی تاثرات پھیلا کر ہم اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہیں۔ ایسی ہی مسلسل حوصلہ شکنی اور اپنوں کے ناروا تاثرات کے باعث ہی پی آئی اے کی ساکھ متاثر ہونے کے بعد اس کا مورال بھی ڈاؤن ہے، جس کے اثرات خسارے کی شکل میں قومی معیشت پر پڑتے ہیں تو پوری قوم کی تراہ نکل جاتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل قطر ائیر ویز کا طیارہ تکنیکی خرابی کا شکار ہوکر کا سلام آباد ائیرپورٹ پر اتارا گیا اور مرمت کیلئے بھیج دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں اس طیارے نے ہمارا رن وے بھی خراب کیا مگر کیا سول ایوی ایشن نے قطری ائیرلائن پر جرمانہ عائد کیا اور قطری عوام نے اپنی ائیرلائن پر تنقید کی؟ بالکل نہیں، وہ تنقید نہیں کرتے بلکہ اپنے اداروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، اس لیے ان کے ادارے بھی پوری قوت سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہیں!
کچھ سالوں سے پی آئی اے کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ پی آئی اے کے پائلٹس جعلی لائسنس یافتہ ہیں کیونکہ سابق وزیر ہوا بازی نے بغیر کسی تصدیق کے اپنے ہی پائلٹوں کے سر پر الزامات کا ٹھیکرا پھوڑا تھا۔ اس الزام تراشی کے بعد دنیا بھر میں پاکستانی پائلٹس اور پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری پر پابندیاں لگا دی گئیں، جس نے پی آئی اے کی کمر توڑ کر رکھ دی، جبکہ یہ الزامات تحقیقات میں جھوٹے ثابت ہوئے۔ ہم کتنے با کمال لوگ ہیں کہ ہم اس وزیر کا احتساب کرنے کے بجائے آج بھی پی آئی اے کے خلاف ہی ڈنڈا لیکر کھڑے ہیں!