کراچی: نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے برآمدات اور ترسیلات میں بہتری اورزرمبادلہ کے مستحکم ذخائرکے باوجود روپے کے مقابلہ میں ڈالر کی قدر میں اضافہ پرکاروباری برادری کوتشویش ہے کیونکہ یہ ملکی معیشت کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔
ڈالر کی قدر کو153 روپے تصور کر کے بجٹ بنایا گیا تھا جس کی قدرپہلے ہی مہینے میں 160 روپے تک پہنچ گئی ہے جس سے ساری اقتصادی منصوبہ بندی اوراندازے متاثر جبکہ قرضوں پرسود میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے۔
میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ روپیے کی قدر گرنے سے پٹرول ڈیزل، ایل این جی، خوردنی تیل، گندم، دال اور چینی سمیت درآمد ہونے والی ہرچیزکی قیمت بڑھی ہے جس سے غربت میں اضافہ اور عوام متاثر ہو رہے ہیں جبکہ پیداواری سرگرمیوں پربرا اثرپڑ رہا ہے۔
حکومت ضروری اشیاء مہنگی ہونے کی صورت میں ان کی قیمت کم رکھنے کے لئے سبسڈی کا آپشن اختیار کرتی ہے جس سے بجٹ خسارہ بڑھ جاتا ہے۔ ڈالر کی قدرمیں اضافہ سے برآمدات بڑھانے کے لئے جو مشینری اورخام مال درکار ہوتا ہے اسکی قیمت بھی مسلسل بڑھ رہی ہے جس سے کاروباری لاگت میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری طرف تجارتی خسارہ جو 2020 میں چوبیس ارب ڈالرتھا جون کے آخر تک تیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جس میں مسلسل اضافہ روکنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
میاں زاہد حسین مذید کہا کہ مرکزی بینک نے معیشت کو سنبھالا دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے اورحالیہ مانیٹری پالیسی میں شرح سود کو برقرار رکھا ہے تاکہ اقتصادی بحالی کی سرگرمیاں متاثرنہ ہوں۔
اب یہ ادارہ ڈالرکی اڑان پر قابو پانے کے لئے کوشش کرے تاکہ معیشت مذید متاثر نہ ہوکیونکہ ملک پرپہلے ہی بیرونی قرضوں کا بوجھ ایک سواٹھارہ ارب ڈالر ہو چکا ہے۔
مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک نے آئندہ دو ماہ کی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا، شرح سود7فیصد برقرار