ملک بھر میں ڈینگی بخار بے قابو، کیایہ بیماری جان لیواثابت ہوسکتی ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک بھر میں ڈینگی بخار بے قابو، کیا یہ بیماری جان لیواثابت ہوسکتی ہے؟
ملک بھر میں ڈینگی بخار بے قابو، کیا یہ بیماری جان لیواثابت ہوسکتی ہے؟

ملک بھر میں ڈینگی وائرس بری طرح بے قابو ہوگیا ہے، محکمہ صحت سندھ کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہی رواں ماہ ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد 730 سے زائد ہوگئی ہے۔

وباء کی شکل اختیار کرتی یہ بیماری کیسے پھیلتی ہے اور اس سے کس طرح سے بچا جاسکتا ہے؟

ڈینگی کیسے پھیلتا ہے؟

ڈینگی مادہ مچھروں سے پھیلنے والی بیماری ہے، پاکستان کے مختلف حصوں میں سیلابی صورتحال کے بعد جگہ جگہ پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے مچھروں کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، اسی لیے اس بیماری نے ملک میں وباء کی شکل اختیار کرلی ہے۔

ڈینگی بخار کی کیا علامات ہیں؟

ڈینگی میں سب سے پہلے تیز بخار کے ساتھ فلو جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

ڈینگی وائرس سے متاثر مادہ مچھر کے کاٹنے کے بعد 4 سے 10 دن بعد جب مریض میں بیماری کی علامات ظاہر ہوتی ہیں تو اکثر افراد اسے فلو کا نتیجہ سمجھ کر نظر انداز کرنے لگتے ہیں۔

لیکن آہستہ آہستہ دوسری علامات بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں جیسے ڈینگی میں بخار 103، 104 تک پہنچتا ہے، پٹھوں، ہڈیوں یا جوڑوں میں تکلیف ہوتی ہے، متلی، قے اور آنکھوں کے اندر تکلیف شروع ہوجاتی ہے، مریض پر غنودگی طاری ہونے لگتی ہے اور جسم میں الرجی جیسی علامات سامنے آنے لگتی ہیں۔

کیا یہ سنگین بھی ہوسکتا ہے؟

ڈینگی کے بیشتر مریض ایک ہفتے کے اندر ٹھیک ہوجاتے ہیں، مگر کئی بارعلامات کی شدت بڑھ جاتی ہے۔

ڈینگی کی شدت اس وقت بڑھتی ہے جب جسم میں خون مسلسل پتلا ہونے لگتا ہے، بار بار منہ، ناک مسوڑوں یا جسم کے دیگر حصوں سے خون بہتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ڈینگی میں خون کو جمانے والے خلیات یعنی پلیٹلیٹس کی تعداد کم ہوجاتی ہے۔

ایک صحت مند انسان میں پلیٹلیٹس کی عام تعداد 1 لاکھ 50 ہزار سے 4 لاکھ 50 ہزار تک ہوتی ہے لیکن ڈینگی میں یہ تعداد گھٹنے لگتی ہے اور 20000-40000 تک بھی پہنچ جاتی ہے سنگین صورتوں میں خون کی منتقلی کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

کیا اس کا علاج ممکن ہے؟

ڈینگی بخار کا کوئی واضح علاج موجود نہیں ہے لیکن ڈاکٹرز اس کی علامات کو کم کرنے کیلئے مختلف قسم کی ادویات تجویز کرتے ہیں ۔

دوا لینے کے ساتھ ساتھ مریض کو چاہیے کہ وہ تازہ پھلوں کے جوس خاص کر سیب کے جوس کا استعمال کرے اس سے نہ صرف پلیٹلیٹس کی تعداد پوری ہوگی بلکہ یہ جسم کی کمزوری کو ختم کرنے میں بھی فائدہ مند ثابت ہوگا۔

کونسی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیئے؟

ڈینگی سے بچاؤ کے لیے موسکیٹو repellentsکا استعمال کریں، کھڑکیوں اور دروازوں سے مچھروں کو آنے سے روکنے کی کوشش کریں، آستینوں والی قمیض اور پیروں میں جرابیں پہن کر باہر جائیں۔

اگر گھر میں کسی کو ڈینگی ہوگیا ہے تو اپنے اور دیگر گھر والوں کے تحفظ کے لیے بہت زیادہ احتیاط کریں کیونکہ مریض کو اگر کوئی عام مچھر بھی کاٹ لے تو ڈینگی وائرس اس میں منتقل ہوجاتا ہے جس کے بعد وہ مچھر وائرس کو آگے پھیلا سکتا ہے۔

ڈینگی کو کسی صورت نظر انداز نہ کریں، یہ بیماری جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ ڈینگی کی علامات ظاہر ہوتے ہی فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

Related Posts