ڈیموکریسی انڈیکس 2020 نے پاکستان کو “ہائبرڈ نظام” والا ملک قرار دے دیا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ڈیموکریسی انڈیکس 2020 نے پاکستان کو ہائبرڈ نظام والا ملک قرار دے دیا
ڈیموکریسی انڈیکس 2020 نے پاکستان کو ہائبرڈ نظام والا ملک قرار دے دیا

مختلف ممالک میں جمہوری نظام کا جائزہ لینے والی بین الاقوامی تحقیقاتی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے نظام حکومت کو ’ہائبرڈ‘ کا مرکب قرار دے دیا۔ رپورٹ کے مطابق جمہوریت کے اعتبار سے پاکستان کا شمار ہائبرڈ نظام والے ملکوں کی فہرست میں 105ویں نمبر پر آتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ’ڈیموکریسی انڈیکس 2020‘ نامی رپورٹ میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے 165 آزاد ممالک اور دو خود مختار خطوں میں رائج جمہوریت کا جائزہ لیا گیا ہے۔

بین الاقوامی جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کے انٹیلیجنس یونٹ ’ای آئی یو‘ کی جمہوریت کے حوالے سے جاری کردہ اس فہرست میں پاکستان 167 میں سے 105ویں نمبر پر ہے اور 2020 میں ملک کا مجموعی سکور 4.31 ریکارڈ کیا گیا ہے، جو گزشتہ دو برسوں کے مقابلے کچھ بہتر ہے۔

لیکن رپورٹ کے مطابق سنہ 2016 اور اس سے پچھلے برسوں کے مقابلے پاکستان کی جمہوریت میں تنزلی دیکھی گئی ہے۔

حکومتی موقف 

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں اطلاعات و نشریات سے متعلق قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت میں استحکام نہ آنے کی وجہ حزب مخالف کی جماعتوں کا منفی رویہ ہے۔

رپورٹ میں پاکستان کو ترکی، نائجیریا اور بنگلہ دیش کے ساتھ ’ہائبرڈ نظام‘ والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ رپورٹ کی تشکیل میں شہری آزادی، انتخابی نظام اور سیاسی کلچر اور اس میں مختلف سوچ کے لوگوں کی شرکت کی گنجائش جیسے عوامل کا جائزہ لیا گیا تھا۔

پاکستان کے ’ہائبرڈ نظام‘ کے معنی کیا ہیں ؟

ای آئی یو نے پاکستان کے نظام حکومت کو ’ہائبرڈ‘ (مرکب) قرار دیا ہے۔ ادارے کے مطابق ہائبرڈ نظام والے ممالک میں کافی انتخابی بے ضابطگیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے انھیں ’صاف اور شفاف‘ الیکشن قرار نہیں دیا جاتا ہے۔

ادارے نے تمام ملکوں کو مکمل جمہوریت، ناقص جمہوریت، ہائبرڈ اور آمریت میں تقسیم کیا ہے۔

ہائبرڈ نظام کی تعریف میں لکھا گیا ہے کہ ایسے ملکوں میں حزب اختلاف کی جماعتوں اور امیدواروں پر حکومتی دباؤ عام ہوسکتا ہے۔ کسی ناقص جمہوریت کے مقابلے میں یہاں شہری آزادی، انتخابی نظام اور سیاسی کلچر میں زیادہ کمزوریاں ہوسکتی ہیں۔

اس کے مطابق ’سول سوسائٹی کمزور ہوتی ہے۔ عام طور پر صحافیوں کو ہراس اور دباؤ کا سامنا ہوتا ہے اور عدلیہ آزاد نہیں ہوتی۔‘

پلڈاٹ کا موقف 

پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب نے بتایا کہ پاکستان میں بعض حلقوں میں ‘ہائبرڈ نظام’ کا عام مطلب سویلین حکومت اور فوج کا گٹھ جوڑ سمجھا جاتا ہے لیکن اس رپورٹ میں اس اصطلاح کے معنی لازماً یہ نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیموکریسی انڈیکس 2020 میں ملکوں کی درجہ بندی مکمل جمہوریت، ناقص جمہوریت، ہائبرڈ نظام اور آمرانہ نظام کے تناظر میں کی گئی ہے۔ ’یہاں اس سے مراد ہے کہ پاکستان جمہوریت اور آمریت کی درمیانی شکل ہے۔‘

‘یعنی پاکستان میں نہ تو مکمل طور پر جمہوریت ہے اور نہ ہی آمریت۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘بعض ممالک کے تناظر میں آمرانہ نظام حکومت کا مطلب فوج بھی ہوسکتا ہے۔ (لیکن کچھ ملکوں میں) آمریت میں سویلین لوگ بھی شامل ہوسکتے ہیں (یا) صرف ایک سیاسی جماعت کا نظام بھی ہوسکتا ہے۔ ہمارے ہاں ہائبرڈ کا مطلب لازمی فوج لیا جاتا ہے لیکن اس (رپورٹ) میں اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔’

انھوں نے بتایا کہ ملکوں کی درجہ بندی کے لیے ماہرین وہاں کے گورننس، قانونی کی عملداری اور اجتماعیت جیسے عوامل کو مدنظر رکھتے ہیں۔

پاکستان کا سکور کم کیوں، اور اس درجہ بندی سے کیا فرق پڑ سکتا ہے؟

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ پاکستان کا سکور سب سے بُرا ’سیاسی کلچر‘ میں ہے۔ اس سے بہتر سکور سیاسی شرکت میں ہے۔ ’یہ دو سکور سب سے بُرے ہیں۔‘

’گورننس ان سے کچھ بہتر ہے۔ اور الیکشن کا نظام اس سے بھی بہتر ہے۔ ہمیں سیاسی کلچر پر سب سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

اس سوال پر کہ اس درجہ بندی سے پاکستان کے حالات اور تعلقات پر کیا فرق پڑسکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس سے کئی شعبے متاثر ہوسکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سے دنیا میں پاکستان کا عام تاثر، لوگوں کا ملک میں آنا جانا یعنی سیاحت اور لوگوں کی سرمایہ کاری پر فرق پڑ سکتا ہے۔

’پاکستان کو اس وقت غیر ملکی سرمایہ کی بہت ضرورت ہے۔ اگر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہ پتا چلے گا کہ یہ ملک ہائبرڈ ہے اور یہاں آمریت کے جراثیم بھی پائے جاتے ہیں تو یہ ان کے لیے حوصلہ شکنی کا باعث ہوگا۔‘

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اس درجہ بندی کے مطابق پاکستان کے لیے بہتری کی کافی گنجائش ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ پاکستان کی درجہ بندی اسی صورت بہتر ہوسکتی ہے کہ اگر گورننس، قانون کی عملداری، سیاسی کلچر اور انتخابی عمل کے مسائل دور کیے جاتے ہیں۔

انڈیا اور امریکہ ’ناقص جمہوریت‘ قرار

ای آئی یو کی ڈیموکریسی انڈیکس 2020 میں انڈیا (53ویں نمبر) اور امریکہ (25ویں نمبر) کو ناقص جمہوریت والے ممالک میں شمار کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’سنہ 2015 سے انڈیا کی جمہوری روایات پر دباؤ ہے۔۔۔ نریندر مودی، جو ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے رکن ہیں، کی قیادت میں انڈیا کی عالمی پوزیشن 27ویں نمبر سے 53ویں نمبر پر آگئی ہے۔

’مودی کی سربراہی میں پالیسیوں کو مسلم مخالف قرار دیا گیا ہے اور اس سے مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلی ہے جس سے ملک کے سیاسی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے۔‘

رپورٹ میں شہریت کے متنازع قانون، بابری مسجد کے انہدام اور کورونا وائرس کی روک تھام کے دوران شہری آزادیوں کی خلاف وزیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

’انڈیا کے مقابلے میں اس کے ہمسایہ ممالک بنگلہ دیش، بھوٹان اور پاکستان کے مجموعی سکور میں بہتری آئی ہے۔‘

دوسری طرف سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کو مکمل جمہوریت سے ناقص جمہوریت والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ’ٹرمپ اور ان کے تعینات کردہ افراد نے بعض اوقات پُرتشدد رویوں کی حمایت کی ہے۔۔۔ اپنی غیر معقول زبان اور بے بنیاد الزامات سے ٹرمپ نے جمہوریت پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔‘

ایشیا میں تین نئے ’مکمل جمہوری ملک‘

ای آئی یو کی 2020 کی رپورٹ میں ناروے پہلے نمبر ہے اور اس کے بعد آئس لینڈ، سویڈن، نیوزی لینڈ، کینیڈا، فن لینڈ اور ڈنمارک ہیں جنھیں مکمل جمہوریت والے ممالک میں شمار کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں یہ اعزاز برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی اور سپین کو بھی حاصل ہوا ہے۔

اس کے مطابق ایشیا میں تین نئے مکمل جمہوری ملک ہیں: جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان۔ ایشیا میں مکمل جمہوریت والے پانچ جبکہ مغربی یورپ میں ان کی تعداد 13 ہیں۔

امریکہ کے علاوہ فرانس، پرتگال، اسرائیل، برازیل، اٹلی، ملیشیا اور جنوبی افریقہ کو بھی ناقص جمہوریت قرار دیا گیا ہے۔

شمالی کوریا اس فہرست میں آخری نمبر (167) پر ہے۔

پاکستان کی حکومت کا رد عمل

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں اطلاعات و نشریات سے متعلق قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت میں استحکام نہ آنے کی وجہ حزب مخالف کی جماعتوں کا منفی رویہ ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر حکومت لوگوں کی فلاح و بہبود اور ملک میں قانون کی عمل داری کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کوئی قانون سازی کرنے کے لیے کوئی بل ایوان میں لیکر آتی ہے تو کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ حکومت عوام میں سیاسی معاملات کے بارے میں شعور پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس ضمن میں اقدامات بھی کیے جارہے ہیں جس کی واضح مثال گلگت بلتستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات ہیں۔

اُنھوں نے تسلیم کیا کہ کچھ معامالات میں حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترسکی تاہم اگلے ماہ سینیٹ کے انتخابات کے نتیجے میں جب ان کی جماعت سینیٹ میں اکثریتی جماعت بن کر ابھرے گی تو اس کے بعد لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے اور عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے قانون سازی بھی کی جائے گی۔

Related Posts