مقتدر حلقوں کا وزیر اعلیٰ پنجاب و دیگر کو ہٹانے کا مطالبہ‘ وزیر اعظم کا انکار

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مقتدر حلقوں کا وزیر اعلیٰ پنجاب و دیگر کو ہٹانے کا مطالبہ‘ وزیر اعظم کا انکار
مقتدر حلقوں کا وزیر اعلیٰ پنجاب و دیگر کو ہٹانے کا مطالبہ‘ وزیر اعظم کا انکار

اسلام آباد: ایم ایم نیوز کی خبر پر ایکشن، مقتدر حلقوں نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، وزیراعظم کے مشیر ذوالفقار بخاری عرف زلفی بخاری اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔

وزیراعظم نے صاف انکارکردیا، حکومت اور مقتدر قوتوں کے درمیان کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی ہے، ملکی سیاست میں فیصلہ کن کردار کی حامل قوتوں نے غیر علانیہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں، مقتدر حلقوں کی طرف سے 3 اہم حکومتی عہدے داروں کو فوری ہٹانے کا ‘ مطالبہ کردیاگیا۔

اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کو کوروناوائرس سے پیدا شدہ حالیہ سنگین بحران سے نمٹنے کا”خاموش مینڈیٹ“دے دیاگیا۔

ذرائع کے مطابق 22 مارچ کو دن کے وقت وزیراعظم کی طرف سے قوم سے خطاب میں لاک ڈاؤن نہ کرنے کی ”ضد“ پر انہیں مقتدر حلقوں کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد صوبائی حکومتوں، خاص طورپر پنجاب میں انتظامی معاملات مقتدر قوتوں کو خاموشی کے ساتھ براہ راست ”اپنے ہاتھ“ میں لینا پڑے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم کو بار بار کہا گیا تھا کہ وہ کوروناوائرس سے جنم لینے والی ایمرجنسی کی سنگین صورتحال کے پیش نظر فی الفور ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیں جبکہ خیبر پختون خواہ اور پنجاب کی حکومتیں براہ راست وزیر اعظم عمران خان کے کنٹرول میں ہیں لیکن وزیراعظم لاک ڈاؤن نہ کرنے کے فیصلے پر اڑے رہے۔

پہلے وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے پریس کانفرنس میں دو ٹوک کہا کہ شہروں کو لاک ڈاؤن نہیں کیا جا رہا اور پھر اگلے 48 گھنٹوں کے دوران خود وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں لاک ڈاؤن نہ کرنے کے فیصلے کا اعلان کردیا۔

ذرائع کے مطابق اس کے تھوڑی ہی دیر بعد وڈیو لنک پر کوروناوائرس ایشو کے یک نکاتی ایجنڈے پر ہنگامی کور کمانڈرز کانفرنس میں وزیر اعظم کی ”ہٹ دھرمی“ کا سخت نوٹس لیا گیا اور سویلین لیڈر شپ کے طرز عمل پر شرکاء کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق اس کانفرنس میں کہا گیا کہ وزیراعظم سے بار بار پنجاب کا وزیراعلیٰ بدلنے کا کہا گیا مگر وزیراعظم مسلسل انکار کرتے رہے ہیں، وزیراعظم سے برطانیہ سے امپورٹ کردہ مشیر سے جان چھڑانے کا کہا تو بھی وہ نہیں مانے، ان سے کہا گیا اس پرنسپل سیکرٹری کو ہٹا دو جس کے مشوروں سے گورننس کا یہ حالہو چکا ہے توبھی وزیراعظم نے انکار کر دیا۔

ذرائع کا کہنا ہے مذکورہ کانفرنس کے فوری بعد پرائم منسٹر ہاؤس کو ایک سخت پیغام بھجوایا گیا اور مقتدر حلقوں نے خاموشی سے معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اسی روز پنجاب حکومت کی طرف سے فوری طور پر آرٹیکل 245 کے تحت صوبے میں فوج طلب کئے جانے کی درخواست پر مبنی رسمی چھٹیڈرافٹ کروائی اور وزیراعظم کی رضامندی نظر انداز کرتے ہوئے صوبے میں لاک ڈاؤن کروا دیا گیا۔

بتایا جاتا ہے کہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں چھٹیاں 31 مئی تک بڑھا نے کا جو اعلان 24 مارچ کو کیا گیا اس فیصلے کو بھی پرائم منسٹر ہاؤس کی رضامندی حاصل نہیں بلکہ وزیراعظم کی منشاء کے خلاف براہ راست اس کا اعلان کروایا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار، پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعظم اعظم خان اور سمندر پار پاکستانیوں کے امور بارے وزیراعظم کے مشیر زلفی بخاری کو مقتدر حلقوں نے انتہائی ناپسندیدہ شخصیات قرار دیتے ہوئے ان کی فوری ” چھٹی” کرنے کا کہہ دیاہے۔

دوسری طرف کوروناوائرس بارے قومی یک سوئی اور یک جہتی کی غرض سے سیاسی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کا ٹاسک بھی حکومت سے لے لیا گیا ہے جس نے اس کی شروعات کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں کی ذمہ داری سونپی تھی۔

بتایا جارہا ہے کہ اب یہ ٹاسک غیر اعلانیہ طور پر قائد حزب اختلاف شہبازشریف کو سونپ دیا گیا ہے، جنہوں نے 24 مارچ کو اپنے ایک طرف گلوب اور دوسری جانب قومی پرچم رکھ کے بڑے نپے تلے لفظوں میں وڈیو لنک کے ذریعے ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کو لندن سے ہنگامی طور پر بلوا کر ” فعال ” کرنے کا مقصد ایک طرف تو قومی سطح پر وزیراعظم کے لئے بطور ایک دھمکی استعمال کرنا ہے تو دوسری طرف پہلے مرحلے میں پنجاب کی سطح پر سیاسی تبدیلی لائی جا سکتی ہے جس کے لئے صوبے کے سابق وزیراعلیٰ کا کردار اہم بتایا جاتا ہے۔

Related Posts