آئین کا دفاع یا سیاسی جھگڑا؟ پی ٹی آئی کا منحرف اراکین کے خلاف کارروائی کا فیصلہ

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
(فوٹو؛ فائل)

پاکستان تحریک انصاف نے 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ شامل ہونے والے چار حمایت یافتہ قومی اسمبلی اراکین کے خلاف سنگین اقدام اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

پی ٹی آئی کے سابق اسپیکر اور سینئر رہنما اسد قیصر نے بتایا ہے کہ جن چار ایم این ایز چوہدری عثمان علی، مبارک زیب، اورنگزیب کھچی اور ظہور قریشی نے پارٹی کی واضح پالیسی کی خلاف وزری کرتے ہوئے ترمیم میں حصہ لیا اب ان کے خلاف ریفرنس اسپیکر قومی اسمبلی سے شروع ہو کر الیکشن کمیشن اور ممکنہ طور پر سپریم کورٹ تک بھیجا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ارکان پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے مگر اب وہ (ن) لیگ میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس لیے پارٹی نے نااہلی کا ریفرنس اسپیکر اور الیکشن کمیشن کو بھیجوایا جائے تاکہ آئین کے زیر بحث آرٹیکل 63A کے تحت ان کے خلاف کارروائی ممکن ہو سکے ۔

آرٹیکل 63A کے تحت، اگر کوئی رکن پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ دیتا ہےخصوصاً وزیر اعظم یا آئینی بلوں پر تو اسپیکر اور الیکشن کمیشن اسے نااہل قرار دے سکتے ہیں۔ سابق کیسز میں پی ٹی آئی کے ارکان کو اسی بنیاد پر نااہل کیا جا چکا ہے ۔

ریفرنس اسپیکر کو بھیجا جائے گا، جو پھر الیکشن کمیشن کو آگے ریفر کرے گا۔الیکشن کمیشن آئینی شق کا جائزہ لے کر نااہلی کی سفارش کر سکتا ہے، جیسا 2022 میں 25 پنجاب اسمبلی اراکین کے ساتھ ہوا۔

ممکنہ طور پر کیس سپریم کورٹ بھی جائے، اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلہ چیلنج کیا گیا۔ پی ٹی آئی نے سیاسی طور پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے نااہلی اور قانونی کارروائی کے ذریعے ان چار ایم این ایز کے انتخابات کو چیلنج کرنے کا راستہ کھول دیا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر کے مطابق یہ سب آئینی دائرے میں ہو رہا ہے تاکہ پارٹی کے مینڈیٹ اور نظم و ضبط کو برقرار رکھا جا سکے۔

Related Posts