کلچر، سیاست اور مغربی جبر

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کلچر، سیاست اور مغربی جبر
کلچر، سیاست اور مغربی جبر

یوکرین کا سٹریٹیجک اہمیت کا شہر بخموت ان کے ہاتھ سے نکلنے کو ہے۔ خیال تھا کہ اس کے ہوچکنے کا انتظار کرکے یوکرین کی جنگ پر دو تین قسطوں میں ایک مفصل کالم لکھ کر اس جنگ کا پس منظر اور عالمی سیاست پر پڑنے والے اس کے دور رس اثرات کا احاطہ کریں گے۔ مگر پھر خیال آیا کہ کیوں نہ اس سے قبل ایک کالم ایسا لکھ لیا جائے جس میں پرامن بقاء باہمی کے عالمگیر اصول اور اس سے مغرب کے انحراف پر بات کرلی جائے، جس سے قاری کے لئے اس جنگ کے حوالے سے درست اور غلط سمجھنا آسان ہوجائے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ انسان ایک سماجی جاندار ہے۔ یہ تنہاء زندگی گزارنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ چونکہ یہ تخیل سے مالامال دماغ رکھتا ہے سو اس کے اجتماعی شکل میں رہنے کا تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا اس کی اجتماعیت نے کلچر کو جنم دیا۔ کلچر کی تعریف پر اہل علم، علم جھاڑنے کے لئے فضول قسم کی گنجلک گفتگو کیا کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا اس قسم کا کوئی ارادہ نہیں۔ سو چار چھ جملوں میں پوری سادگی سے عرض ہے کہ کسی بھی انسانی سماج کا طرز زندگی کلچر کہلاتا ہے۔انسان اپنے تاریخی سفر حیات میں زمین کے طول و عرض میں پھیلتا چلا گیا ہے۔ اور زمین ایسی جگہ ہے جو مختلف فاصلوں پر مختلف روپ رکھتی ہے۔ صحرا، دریا، میدان، پہاڑ اور ان میں بھی پھر بنجر اور زرخیز ہر طرح کے خطے نظر آتے ہیں۔

مگر یکسانیت کہیں نہیں ہے بلکہ پہلی نظر میں ہی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ زمین ایک بہت بڑا کینوس ہے جس پر اس کے خالق حقیقی نے بہت بڑے درجے کی آرٹسٹک خلاقی کر رکھی ہے۔ مگر اس فن پارے کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس کے خالق حقیقی نے انسان کو یہ دعوت دے رکھی ہے کہ میرے اس فن پارے میں تم اپنے حصے کے رنگ بھی بھرتے رہو۔

پھر ایک اہم بات یہ ہے کہ خطوں کی مختلف ساخت کے ساتھ وہاں کا موسم اور قدرتی ماحول بھی مختلف ہے۔ سو جس جس خطے پر انسانی اجتماع بسا اس خطے کے ان مجموعی احوال کے تقاضوں کے مطابق ہی ان کا کلچر تشکیل پاتا چلا گیا۔ یوں ایک دوسرے سے مسافتوں پر بسے ان اجتماعات کے کلچر ایک دوسرے سے مختلف ہوتے چلے گئے۔ اپنے ارتقائی سفر کے دوران جلد ہی انسان اس تجربے سے گزرا کہ اس کا طرز زندگی غیر محفوظ ہے۔

لھذا کوئی ایسی سکیم ہونی چاہئے جس سے صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ ہمارے طرز حیات کو بھی تحفظ میسر آجائے۔ یوں پہلے قبیلے اور سردار اور پھر ریاست و حکمران کا تصور سامنے آگیا۔ جس میں پھر وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ادارے وجود میں آتے چلے گئے۔ اور یہیں سے ممالک کی جغرافیائی تقسیم وجود میں آگئی۔

سوال یہ ہے کہ ہر سرحدی لکیر اپنے دونوں اطراف بسے انسانوں کو پیغام کیا دیتی ہے ؟ ہر سرحدی لکیر بس ایک ہی پیغام دیتی ہے اور وہ یہ کہ اس لکیر کے دونوں اطراف دو مختلف کلچر یعنی طرز حیات آباد ہیں۔ اور یہ دونوں انسانی اجتماع اپنے طرز حیات میں مداخلت نہیں چاہتے۔ لھذا یہ لکیر کھینچ دی گئی ہے تاکہ دونوں طرز حیات کی حد بندی ہوسکے اور اس سے تجاوز کو مجرمانہ مداخلت سمجھا جا سکے۔ آج کے اس ماڈرن ورلڈ میں جب کوئی اس لکیر کو عبور کرنا چاہے تو اس کے لئے ویزے کا نظام وضع کیا گیا ہے۔

جب ہم کسی سفارت خانے یا قونصل خانے میں ویزا لینے جاتے ہیں تو وہ ہمارا انٹرویو کرتے ہیں۔ کیوں ؟ تاکہ انہیں یہ تسلی ہوجائے کہ ہمیں لکیر کراس کرکے اپنے علاقے میں آنے کی اجازت دینے سے ان کے طرز حیات کو کوئی نقصان نہ ہوگا۔ اگر انہیں اطمینان ہوجائے تو لکیر عبور کرنے کی اجازت مل جاتی ہے ورنہ نہیں۔

اب اگر آپ غور کیجئے تو انسانی تاریخ کا ایک طویل تسلسل یہ ثابت کرتا ہے کہ ہر جغرافیائی دائرے میں موجود طرز حیات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ہر طرز حیات والوں کو نہ صرف یہ کہ اپنے طرز حیات پر چلنے کی مکمل آزادی ہے بلکہ اس میں مداخلت کا بھی کسی کو حق نہیں۔ اور حق نہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل سرحدی سرحدی لکیریں ہیں۔

اگر کوئی ملک اس سرحدی لکیر کو عبور کرتے ہوئے کسی طرز حیات پر حملہ آور ہوکر قابض ہوجائے تو اس کے خلاف مزاحمت کیوں ہوتی ہے ؟ کیا یہ صرف وسائل پر قبضے کی جنگ ہوتی ہے ؟ نہیں، یہ کلچرل تصادم بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم نے برٹش، سوویت اور امریکی قبضوں کے دوران مقامی آبادیوں کے یہ نوحے عام سن رکھے ہیں کہ ہماری ثقافت اور تہذیب تباہ کی جا رہی ہے۔

ہماری آج کی دنیا میں امریکہ سب سے طاقتور ملک ہے۔ اور اس کے دو بڑے دعوے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ تاریخ انسانی کی سب عظیم قوم ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم نے انسانی حقوق کو معراج عطاء کی ہے۔ اس کے یہ دونوں دعوے باقی دنیا کے لئے خطرناک نتائج رکھتے ہیں جن کا اظہار ہم دوسری جنگ عظیم کے بعد سے متواتر دیکھتے آرہے ہیں۔

جب وہ یہ کہتا ہے کہ ہم سب سے عظیم قوم ہیں تو اس کا مطلب اس کی خارجہ پالیسی کی صورت یوں اپنا اظہار کرتا ہے کہ چونکہ باقی قومیں ہم سے کمتر درجے کی ہیں لھذا انہیں اپنا “گھٹیا” طرز حیات جاری رکھنے کا کوئی حق نہیں۔ ان سب کو ہمارے ہی کلچر میں رنگنا ہوگا اور پوری دنیا پر ہماری اتھارٹی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ چنانچہ امریکہ نہ صرف کمزور قوموں پر یہ دباؤ ڈالتا ہے کہ لبرل ڈیموکریسی اختیار کرو بلکہ ان کے تعلیمی نصاب سے لے کر معاشی نطام تک ہر چیز میں اپنا جبر مسلط کرتا ہے۔

یہی کام برطانوی سلطنت اپنے دور عروج میں یوں کیا کرتی تھی کہ جہاں بھی قبضے کے لئے جاتے پادریوں کا بریگیڈ بھی ساتھ لے جاتے۔ یہ پادری مقامی آبادی کو عیسائیت کی دعوت دے کر ان کا مذہب تبدیل کروانے کی کوشش کرتے۔ کیونکہ مذہب تبدیل ہونے کی صورت میں کلچرل تبدیلیاں آسانی سے رونما ہوجایا کرتی ہیں۔ گر امریکہ نے اس کام کے لئے دفتر خارجہ، وزات دفاع اور این جی اوز کی سکیم متعارف کرا رکھی ہے۔

چنانچہ یہ جو ہمارے ملک میں وجاہت مسعود ٹائپ کے لوگ ہمیں بات بات پر یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ “مہذب دنیا” نے فلاں فلاں اصول اپنا رکھے ہیں لھذا ہمیں بھی یہی کرنا چاہئے یہ درحقیقت آج کے دور میں برطانیہ کے مشنری پادریوں کا ہی متبادل ہیں۔ نہایت قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے مقامی پیادوں کی یہ تمام سرگرمیاں نہ صرف یہ کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں بلکہ یہ اس پوری انسانی تاریخ کی بھی نفی ہے جس کی جانب پچھلی سطور میں اشارہ کیا گیا۔

جس ملک کی جغرافیائی حدود میں صرف ایک سال کے دوران سات لاکھ ریپ ہوتے ہوں۔ جہاں بے گھر بچوں کی تعداد لاکھوں میں ہو۔ اور جہاں اجتماعی قتل کے ایک سال چار سو کے لگ بھگ واقعات ہوتے ہوں وہ اگر وجاہت مسعود صاحب کو “مہذب” لگتا ہے تو ان کی رائے ہے وہ شوق سے رکھیں۔ مگر عقل و خرد کے کسی بھی پیمانے پر یہ مہذب نہیں بلکہ حیوانی معاشرے کی علامات ہیں۔ آپ ذرا ایک نظر امریکہ کے مذکورہ دوسرے بڑے دعوے پر ڈال لیجئے آپ کو مہذب دنیا کی اصل حقیقت سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے گی۔ جب امریکہ یہ کہتا ہے کہ اس نے انسانی حقوق کو معراج عطاء کردی ہے تو ظاہر ہے کہ لوگ اس کے مظاہر بھی دیکھنا چاہیں گے۔

چنانچہ اس کا انتظام انہوں نے عورتوں اور ہم جنس پرستوں کے حقوق جیسے ڈھکوسلوں کی صورت کر رکھا ہے۔ اور یہ چونکہ علامتی حیثیت رکھتے ہیں لھذا انہوں نے اس بات کا بھی مستقل انتظام کر رکھا ہے کہ ان کا میڈیا ہر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی بہانے اس کا ذکر کرتا رہے۔ تاکہ یہ علامات ہر وقت موجود نظر آئیں۔

لیکن اگر آپ نے حقیقت دیکھنی ہو تو تین چیزیں دیکھ لیجئے۔ ایک یہ کہ کیا امریکہ میں مرد اور عورت کی تنخواہوں کا تناسب ایک ہی ہے ؟ تنخواہوں کے مجموعی فرق کی صورتحال یہ ہے کہ عورت کی تنخواہ امریکہ میں مرد بیس فیصد کم ہے۔ لیکن اس کی ایک ریاست مرمونٹ میں یہ فرق چالیس فیصد کا ہے۔ دوسری چیز یہ کہ اگر امریکہ واقعی اتنا ہی زبردست ہے کہ اس نے تو ہم جنس پرستوں کے حقوق کا بھی انتظام کر رکھا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہی امریکہ اس لمحہ موجود تک امریکہ کی اصل آبادی اپاچیوں کو ان کے حقوق نہیں دے رہا ؟

یہ اپاچی اس سرزمین پر تب سے ہیں جب کرسٹوفر کولمبس کے ابھی ابا حضور بھی اپنی پیدائش کے منتظر تھے۔ اور انہی اپاچیوں کا آج اسی امریکہ میں یہ حال ہے کہ انہیں ان مقامات پر بسایا گیا ہے جہاں امریکہ اپنا ایٹمی فضلہ دفن کرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ان اپاچیوں کی اوسط عمر 45 سال کے لگ بھگ ہے۔

ممکن ہے لنڈا بازار کا سطحی ذہن موجودہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا حوالہ دے کر کہے کہ وہ بھی تو اپاچی ہیں، اور دیکھئے کتنا بڑا منصب عطاء ہوا ہے انہیں۔ سو واضح کردیں کہ سیاست کے بازاروں میں اس طرح کی انفرادی حرکتیں کرکے درحقیقت واردات ہی کی جا رہی ہوتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ بلوچ کہیں، ہماری قوم کو حقوق دیجئے اور آپ پوری قوم کو حقوق دینے کی بجائےصادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنا دیں۔

تیسری چیز یہ کہ اسی امریکہ میں آج بھی “بلیک لائف میٹر” تحریک چل رہی ہے یا نہیں ؟وہاں پولیس تشدد کا نشانہ بننے والے ہمیشہ سیاہ فام، ایشیائی یا لاطینی کیوں ہوتے ہیں ؟ کبھی کسی دیکھا کہ کسی گورے کی گردن پر پولیس اہلکار نے گھٹنا جما رکھا ہو اور وہ نحیف سی آواز میں کہہ رہا ہو “میری سانس بند ہورہی ہے” ؟

یہ صورتحال اس کے سوا کیا بتاتی ہے کہ امریکہ انسانی حقوق کا بدترین ریکارڈ رکھتا ہے۔ مگر طاقت کے زور پر اس کا طرز عمل یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے ابدی اصولوں کو بھی مسخ کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ اور پوری دنیا میں بزور طاقت اپنا نظام مسلط کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ اور اس کے ہمارے ہاں کے مقامی پیادے ہمیں یہ تو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ چونکہ امریکہ ہی نہیں بلکہ پورا مغرب مہذب اقوام کا مجموعہ ہے لھذا ہم پر فرض ہے کہ ان کے آگے سر جھکا دیں۔

مگر یہ پیادے یہ نہیں بتاتے کہ لبرل جمہوریت کا دنیا کے ہر ملک کے لئے اختیار کرنا کس عالمی قانون کا تقاضا ہے ؟ کیا اقوام متحدہ کے فورم پر ساری دنیا اس بات پر اتفاق کرچکی ہے کہ دنیا کے ہر ملک کا نظام لبرل جمہوریت ہوگا ؟ نہیں، بلکہ امریکہ کا یہ تقاضا اور ہر کمزور ملک میں بیٹھے اس کے پیادوں کی یہ سرگرمیاں خود اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی ہیں کیونکہ یہ چارٹر ہر قوم کی خود مختاری کو تسلیم کرتا ہے۔ اور یہ انسانی تاریخ کا بھی مسلمہ اصول ہے کہ ہر طرز حیات خود مختار ہے، ہر طرز حیات کو اپنے طرز حیات پر چلنے کی مکمل آزادی ہے اور کسی بھی دوسرے طرز حیات کو کوئی حق نہیں کہ خود کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرے۔

اور یہ بات خود ساکنینِ لنڈا بازار کو بھی معلوم ہے مگر یہ تو روزی روٹی کے لئے ضمیر بھی بیچ دیتے ہیں۔ ان کی صف اول میں بیشتر وہ ہیں جو کسی زمانے میں کمیونزم کی فیکٹری میں کام کیا کرتے تھے۔ اور کمیونزم کی پروڈکٹس کو انسانی فلاح کا ضامن بتاتے تھے۔ چنانچہ ان میں سے جو بقید حیات ہیں وہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ پہلے کمیونسٹ تھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کمیونزم کو کیوں چھوڑا ؟۔ صرف اس لئے کہ اس کی وہ فیکٹری بند ہوگئی جہاں انہیں روزگار میسر تھا۔ ورنہ کمیونزم تو بطور نظریہ اب بھی موجود ہے۔ کسی ملک کے فیلیئر کی وجہ سے نظریے کو ترک کرنے کی کیا تک ؟ مگر ان کی واستگی نظریاتی تھی ہی نہیں۔

ان کا تو صرف روزی روٹی کا معاملہ تھا۔ سو ہماری یہ بات لکھ رکھئے کہ بہت جلد آپ ایک بار پھر انہیں کسی نئی فیکٹری میں دیکھیں گے۔ کیونکہ امریکی زوال علامات اب اس حد تک واضح ہوچکیں کہ امریکہ کا تقریبا تمام آزاد انٹیلی جنشیا بھی تسلیم کر نے لگا ہے کہ ہم تیزی سے ڈوب رہے ہیں۔ اس کے نتائج ہمارے لنڈا بازار میں بیروزگاری کی صورت نظر آئیں گے۔ اور ان بیروزگاروں کو اگر سعودیہ نے بھی کھپانے کا فیصلہ کرلیا تو بخدا آپ آج کے دیسی لبرل کو آنے والے وقت میں “فضیلۃ الشیخ” کی صورت دیکھیں گے !

Related Posts