پاکستان کورونا ادویہ کی تیاری میں بازی لے گیا، آزمائش میں 90 فیصد مریض صحتیاب

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں تیار کورونا کی دوا سے 90 فیصد مریضوں کا علاج کامیابی سے شروع
پاکستان میں تیار کورونا کی دوا سے 90 فیصد مریضوں کا علاج کامیابی سے شروع

پاکستان میں تیار کی گئی کورونا وائرس کی دوا سے 90 فیصد مریضوں کا علاج کامیابی سے شروع ہوگیا ہے جبکہ یہ دوا ڈاؤ یونیورسٹی (تحقیقاتی) لیب میں تیار کی گئی۔

تفصیلات کے مطابق  ڈاؤ یونیورسٹی (تحقیقاتی) لیب نے دوا سے  کورونا وائرس کے  90 فیصد مریضوں کا کامیاب علاج کر کے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ، جبکہ کچھ روز قبل ترکی نژاد ڈاکٹرز میاں بیوی نے کورونا ویکسین تیار کی تھی اور اب پاکستانی ڈاکٹرز نے دوا تیار کرنے کے بعد اس کی آزمائش میں بھی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ 

 ڈاؤ یونیورسٹی لیب کے ڈاکٹر شوکت علی نے ایم ایم نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے سی ۔آئی وی آئی جی کے نام سے کورونا وائرس کی دوا تیار کی ہے جس کی مریضوں پر آزمائش کا سلسلہ جاری ہےاب تک آزمائش کردہ 90 فیصد مریض صحتیاب ہو کر گھروں کو چلے گئے ہیں۔

ڈاکٹر شوکت علی نے کہا کہ صحت یاب ہونے کے 15 روز بعد تک  مریضوں کو قرنطینہ میں رکھا جا تا ہے۔ ہماری ایجاد کردہ دوا اوراس کی مریضوں پر آزمائش ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے رجسٹرڈ ہے ، اور تمام تر صورتحال متعلقہ ہیلتھ ایجنسیز کے علم میں لائی جاتی ہیں۔

کورونا وائرس کی دوا کے حوالے سے ڈاکٹر شوکت علی نے بتایا کہ ہم اب کامیابی کے اہم مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی جانب سے دوا اینٹی کووِڈ 19 اوینس امیونوگلوبیولن (سی آئی وی آئی جی) کے کامیاب کلینیکل ٹرائیل کے انتہائی مثبت نتائج حاصل ہونے لگے ہیں،

وائرس کی دوا کے متعلق ڈاکٹر شوکت نے مزید بتایا کہ کلینیکل ٹرائل میں شامل شدید بیمار مریضوں میں صحتیابی کی شرح 100 فیصد رہی جبکہ آئی سی یو میں داخل انتہائی بیمار (کریٹیکل) مریضوں میں صحتیابی کی شرح 60 فیصد سے زائدرہی، صحتیاب ہونے والے 50 فیصد مریضوں کو محض 5 روز میں اسپتال سے فارغ کردیا  جاتا ہے۔

دوا کے متعلق ڈاکٹر شوکت علی نے کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں سی آئی وی آئی جی کے پری کلینکل ٹرائل اپریل کے اوائل میں شروع ہوئے تھے اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے فوری طور پر اس کے کلینیکل ٹرائل کی منظوری دے دی تھی،  پروجیکٹ کے لیے بنیادی فنڈنگ ڈاؤ یونیورسٹی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اشتراک سے کی۔

یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز(ڈاؤ) کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کی نگرانی میں ڈاکٹر شوکت علی اور ان کی ٹیم نے سی آئی وی آئی جی پروجیکٹ پر کام کا آغاز کیا، ڈاکٹر شوکت علی نے بتایا کہ  سی آئی وی آئی جی (انجیکشن)کورونا سے صحتیاب مریضوں کے پلازما سے حاصل شدہ اینٹی باڈیز کو علیحدہ کرکے تیار کیا جاتاہے۔

ماہرانہ رائے کے مطابق کورونا مریضوں میں  سی آئی وی آئی جی کاموثر ہونا انتہائی اہم کامیابی ہے، جس کے لیے کورونا کے صحت یاب مریضوں سے پلازما کا عطیہ کرنے کی درخواست ہے انہو ں نے بتایا کہ ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال میں سی آئی وی آئی جی کے کلینکل ٹرائل جون کے اوائل میں شروع ہوئے۔

بعد ازاں وائرس کی دوسری لہر کے بعد کلینکل ٹرائل میں تیزی آگئی، مگر سی آئی وی آئی جی کی تیاری میں کورونا سے صحت یاب افراد کا پلازما درکارہے، تاکہ بڑی مقدار میں دوا تیار کی جاسکے۔ڈاکٹر شوکت علی نے بتایا کورونا سے صحت یاب افراد کے پلازما سے حاصل ہونے والی اینٹی باڈیز جنہیں سی آئی وی آئی جی کا نام دیا گیا ہے جسم میں داخل ہو کر تباہی پھیلانے والے وائرس کو غیر مؤثر کردیتی ہیں۔

جسم میں مدافعتی نظام کو بے قابو ہونے سے روک کریہ دوا اسے باقاعدہ کر دیتی ہے، جبکہ خاص طریقے سے حاصل کئے گئے شفاف پلازما میں موجود دیگر اینٹی باڈیز ثانوی بیکٹیرئیل  انفیکشن کو روکتے ہیں۔ انہو ں نے بتایا کہ اس پروجیکٹ پر مارچ کے مہینے میں  کام شروع کیا گیا تھا۔ 

کامیاب دوا بنانے کیلئے ٹیم میں منیب الدین، میر راشد علی، فاطمہ انجم، ڈاکٹر محمد مھیمن، ڈاکٹر فرح فرحان، عائشہ علی، مجتبیٰ خان، علیشا شالم، تحریم مشتاق، فیصل شہاب، عبد الصمد خان اور اقراء احمدشامل تھے، جن کی مدد سے بنیادی کام اور پری کلینکل ٹرائل ممکن ہوئے جبکہ کلینکل ٹرائل ڈاؤ یونیورسٹی میں ڈاکٹر شوبھا لکشمی اور سندھ انفیکشئیس ڈیزیز اسپتال میں ڈاکٹر منیبہ سید کی نگرانی میں مکمل کئے جارہے ہیں

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر شوکت علی نے کہا کہ پلازمہ کی جو مقدار کسی بھی صحت مند مریض سے حاصل کی جاتی ہے وہ صرف 3 دن میں پلازمہ عطیہ کرنے والے شخص میں دوبارہ پیدا ہوجاتی ہے ۔یہ قدرتی عمل ہوتا ہے اور اس سے کسی بھی عطیہ کرنے والے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کورونا ویکسین کا کامیاب تجربہ ، مریض ٹھیک ہونے لگے

Related Posts