سندھ میں 1 ارب کے گمنام راشن کی تقسیم میں مبینہ طور پر بدعنوانی کا انکشاف

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سندھ میں 1 ارب کے گمنام راشن کی تقسیم میں مبینہ طور پر بدعنوانی کا انکشاف
سندھ میں 1 ارب کے گمنام راشن کی تقسیم میں مبینہ طور پر بدعنوانی کا انکشاف

کراچی:سندھ میں1 ارب روپے سے زائد کے گمنام راشن کی تقسیم میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے جبکہ اس کرپشن میں مبینہ طورپر ڈپٹی کمشنرز ملوث ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سندھ میں  گمنام راشن کی تقسیم میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی جس میں نجی ہسپتالوں کو 60 کروڑ کی ادائیگی کرکے انہیں بھی اپنے ساتھ ملا لیا گیا جبکہ اِس بدعنوانی میں وہی ڈپٹی کمشنرز ملوث نظر آتے ہیں جو نالوں کی صفائی اور اضافی کچرا اٹھانے کے نام پر کروڑوں کی خوردبرد میں ملوث رہے ہیں۔ 

باخبر ذرائع کے مطابق اگرسندھ حکومت کی جانب سے راشن کی تقسیم اور اس کے لیے ڈپٹی کمشنرز کو دی گئی بھاری رقوم کا توجہ سے حساب کیا جائے  تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ صفائی سے ناآشنا افسران کرپشن بھی صفائی سے نہیں کر سکےاور پہلے مرحلے میں سندھ حکومت کی جانب سےسندھ کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو 2 کروڑ فی کس جاری ہوئے۔

اگلے مرحلے میں پھر 2 کروڑ فی کس  جاری کرکے سندھ کے 29 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو سندھ حکومت نے  مجموعی طور پر 1 ارب 16 کروڑ روپے صرف راشن کی مد میں ادا کیے۔ اگر پہلے مرحلے کے 2 کروڑ کا جائزہ لیا جائے تو حکومت سندھ نے سپریم کورٹ کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس میں اپنے جواب میں بتایا تھا کہ فی راشن 2 ہزار روپے کا بیگ مستحقین کو دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق ایک ڈپٹی کمشنر 2 کروڑ سے زائد رقم سے با آسانی10ہزار افراد کو راشن فراہم کر سکتا تھا۔اس تناسب سے سندھ بھر کی 4 لاکھ 35 ہزار مستحق خاندان استفادہ کرتے۔جبکہ کراچی کے 6 اضلاع کے 90 ہزار مستحقین کی مدد بھی ہوسکتی تھی۔

شہر کی غریب بستیوں میں ہم نے سروے کیا اور کئی علاقوں جن میں اورنگی ٹاؤن ، اتحاد ٹاؤن، ضلع ملیر، لانڈھی ، کورنگی، کیماڑی، لیاری،اور لیاقت آباد کی مختلف گلیوں میں لوگوں نے بتایا کہ چند لوگوں کو اگر راشن ملا بھی ہے تو وہ صرف نجی اداروں اور فلاحی تنظیموں نے دیا تھا۔سندھ حکومت کے راشن کی کسی نے شکل بھی نہیں دیکھی۔

دوسری جانب سندھ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ بعض مستحقین کو نقد رقم بھی ادا کی گئی ہے۔اور نقد رقوم کی ادائیگی کے نام پر 5500 فی خاندان بھی چند من پسند لوگوں کو راشن کی طرح نقد رقم دے کر ریکارڈ پر لایا گیا۔

ایم ایم نیوز نے کوویڈ 19 کی مد میں 12 ارب روپے کے اخراجات کا بھانڈا پھوڑا تو وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی پریس کانفرنس میں اس کا ذکر کیا اور کہا کہ راشن کی مد میں ہم نے اپنے بجٹ سے رقم خرچ کی ہے۔جبکہ یہ رقم ہر ضلع کی یونین کمیٹیز کے ماہانہ فنڈ 5 لاکھ میں سے فی یو سی 2 لاکھ جبری کٹوتی اور ضلعی بلدیات کے ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کر کے  جمع کی گئی۔

 مجموعی طور پر ایک ضلع میں تقریباََ 2 کروڑ سے زائدرقم جمع ہوئی  اور وہی رقم بلدیاتی اداروں سے لے کر ڈپٹی کمشنرز کو دی گئی، جسے بجٹ سے ادائیگی کا نام دیا گیا جس سے خورد برد واضح نظر آتی ہے۔

 وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم نے کوویڈ 19 سے لڑنے کے لیے شعبہ صحت میں اربوں روپے خرچ کیے ہیں۔ اب وزیر اعلیٰ جواب دہ ہیں کہ انہوں نے کراچی کے ایک نجی اسپتال کو 60 کروڑ کی رقم کیوں دی ؟ حکومت کے اپنے اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز خراب ہیں جنہیں مرمت کی ضرورت ہے۔

کورونا وائرس کے مریضوں کو موت سے بچانے والے وینٹی لیٹرز  کی مرمت کرانے اور نئے وینٹی لیٹرز خریدنے کے بجائے نجی اسپتالوں کو 60 کروڑ بانٹ دیے گئے۔اس کے پیچھے بھی ایک مقصد پوشیدہ تھا اور وہ کوویڈ 19 پر حکومتی موقف ، پالیسی اور فیصلوں کی حمایت حاصل کرنا تھا۔

Related Posts