کورونا وائرس نے دنیا بھر کی ایٹمی طاقتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔خود کو سپر پاور سمجھنے والی ایٹمی طاقتیں ایک ننھے سے وائرس کے آگے بے بس ہوگئی ہیں۔کورونا وائرس جسے سائنسدانوں نے کووڈ 19کا نام دیا ہے ،اس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
کیاکورونا وائرس کوئی جنگی ہتھیار ہے؟
چین کا الزام ہے کہ کورونا وائرس کو امریکہ نے چینی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لئے تیار کیا ، دیگر ماہرین کا دعویٰ ہے کہ چینی سائنسدان وہان کی لیبارٹری میں کورونا وائرس پر تحقیق کررہے تھے مگر بداحتیاطی کے باعث وائرس لیبارٹری سے باہر نکل آیا اور اس نے عالمی وباءکی شکل اختیار کرلی۔
عوام کی اکثریت کورونا وائرس کو قدرتی آفت قرار دے رہی ہے، بہرحال وجہ جو بھی ہو یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں پھیلا یا پھر انسان کا پیداکردہ ہے۔اگر اِس وائرس (کووِڈ 19) کو کسی لیبارٹری میں تخلیق کیاگیاہے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وائرس بھی جنگ کے اہم ہتھیار ہیں۔
عالمی طاقتیں اور وائرس کی تخلیق کا عمل
عالمی طاقتیں صرف ایٹمی ہتھیار، میزائل ،جنگی طیاروں اور ٹینکوں پر ہی انحصارنہیں کرتیں بلکہ وائرس اور جراثیم بھی جنگی ہتھیاروں میں شامل کئے جاتے ہیں۔علم حیاتیات کے ماہرین بھی جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے لیبارٹریوں میں وائرس بنانے کا عمل انجام دیتے ہیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں کہ ماہرینِ حیاتیات مختلف وائرس اور جراثیم کے جینیاتی مواد ملا کر ان پر تحقیق اور تجربات کرتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں جنم لینے والی بیماریوں سے قبل از وقت آگاہ ہوجائیں جس سے ان بیماریوں کا خاتمہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتیں بھی لیبارٹریوں میں خفیہ طور پر جراثیم بنانے کے تجربات کرتی ہیں۔جس کا مقصد وائرس یا جراثیم کو ہتھیار کا روپ دینا ہوتا ہے جو وسیع پیمانے پر جانی و مالی تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ یہ اصطلاح میں ”حیاتیاتی ہتھیار“(بائیو ویپن) کہلاتے ہیں۔
حیاتیاتی ہتھیاروں کا پہلا باضابطہ استعمال
علمِ حیاتیات سے تیار کردہ ہتھیاروں کے ذریعے دشمن کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ نے ان ہتھیاروں کی تخلیق اور استعمال پر پابندی عائد کررکھی ہے جبکہ حیاتیاتی جنگ کو جراثیم سے متعلق جنگ بھی کہا جاسکتا ہے۔ حیاتیاتی جنگ کے ہتھیار مہلک جراثیم ،بیکٹیریا،کیڑے مکوڑے اور پھپھوندی ہوسکتے ہیں۔
حیاتیاتی جنگ، ایٹمی اور کیمیائی جنگ سے بہت مختلف ہے۔ماہرین کے مطابق حیاتیاتی جنگ میں پہلا ریکارڈ شدہ استعمال 1347ء میں ہوا جب منگول افواج نے محصور بحیرۂ اسود کی بندرگاہ ”کافا“(فیوڈوسیہ ،یوکرین )کی دیواروں کے پار طاعون سے متاثرہ لاشیں پھینکیں جو کہ کریمیا کا تجارتی مرکز تھا۔
کچھ مورخین کا خیال ہے کہ محصور شہر سے واپس آنے والے بحری جہازہی طاعون کے ساتھ اٹلی واپس آئے جس کے نتیجے میں یورپ میں وبائی بیماری(کالی موت) کی وباءپھیلی جس سے 4 سالوں کے دورا ن تقریبا 25ملین افراد ہلاک ہوئے۔
تاریخ کا تسلسل
یہی تاریخ ایک طویل عرصے بعد دہرائی گئی جب سن 1710ء میں روسی فوج نے سویڈش فوج کے خلاف لڑتے ہوئے ”ر یول“ ( ٹالین ، ایسٹونیا) میں رکاوٹیں کھڑی کر کے شہر کا محاصرہ کرتے ہوئے دیواروں کے پار طاعون سے متاثرہ لاشوں کو پھینک دیا۔
سن 1763ء میں برطانوی فوجیوں نے فورٹ پٹ ( پیٹس برگ،پینسلوانیا) کے محاصرے کے دوران مقامی امریکی ریڈانڈینز میں چیچک کا وائرس پھیلا دیا، جس سے چیچک کی وباءپھیل گئی جبکہ پہلی جنگ عظیم (1914-1918) کے دوران جرمنی نے اتحادی افواج کے گھوڑوں اور مویشیوں کو نقصان پہنچانے کے لئے ایک خفیہ پروگرام شروع کیا۔
کیمیائی و حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی
جرمنی کے ایجنٹوں نے خفیہ طور پراتحادی افواج کی حمایت کرنے پرامریکہ کے بحر اوقیانوس میں موجود بیڑے پر جانوروں میں وائرس پھیلایا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد بیشتر ممالک نے جنگ میں حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔
بیشتر ممالک نے پابندی عائد کرنے کے حوالے سے 1925ء کے جنیوا معاہدے پر دستخط کیے تاہم جاپان نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ طور پر حیاتیاتی جنگ پر تحقیق اور پیداوارجاری رکھی جسے بعد ازاں چین پر استعمال کیا گیا۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران 1937ء اور1945ء میں جاپان نے پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مخالف اتحادی چینی افواج کے خلاف حیاتیاتی ہتھیار کا استعمال کیا۔ جاپانیوں نے نہ صرف چین میں حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال کیا ، بلکہ اس نے 3 ہزار جنگی قیدیوں اور ایجنٹوں پرحیاتیاتی ہتھیاروں کے تجربات کئے۔
جنگی قیدیوں اور ایجنٹس پر جاپان نے طاعون،چیچک،ہیضہ،ٹائفائیڈ،نمونیہ سمیت دیگر وائرس کے تجربات کئے۔ اگرچہ دوسری جنگ عظیم میں حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں تاہم دونوں فریقوں کے پاس حیاتیاتی اور تحقیقی پروگرام موجود تھے۔
امریکا کا حیاتیاتی و جنگی تحقیق کا فیصلہ
چین کے خلاف وائرس کے جاپانی استعمال کی وجہ سے امریکہ نے حیاتیاتی جنگی تحقیق کا فیصلہ کیا تاکہ فوج کو اس خطرے سے بچایا جاسکے اور جوابی صلاحیت مہیا کی جاسکے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ ، جرمنی اور سوویت یونین کے پاس بھی اسی طرح کے پروگرام تھے۔
جنگ میں اس طرح کے ہتھیاروں کا استعمال صرف جاپان نے ہی کیا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کے دور میں سوویت یونین ،امریکہ اور ان کے اتحادیوں نے بڑے پیمانے پر حیاتیاتی ہتھیاروں پرتحقیقی پروگرام اور ہتھیاروں کی تیاری کا آغاز کیا۔
حیاتیاتی ہتھیار کنونشن (بی ڈبلیو سی) معاہدے پر دستخط
سن 1972میں حیاتیاتی ہتھیار کنونشن(بی ڈبلیو سی) منعقد ہوا جس پر تمام ممالک نے دستخط کئے۔ تاہم سوویت یونین نے معاہدے کے باوجود خفیہ طور پر حیاتیاتی ہتھیاروں پر اپنی تحقیق جاری رکھی جس کی تصدیق سابق روسی صدر بورس یلسن نے 1991ء میں سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد کی۔
سوویت یونین (روس) ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد 15 آزاد ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔1969 میں برطانیہ نے اقوام متحدہ میں حیاتیاتی ہتھیاروں پر مکمل پابندی کے لئے تجاویز پیش کیں جن کے تحت امریکی صدر رچرڈ نیکسن نے حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری کو ختم کردیا ۔
دفاعی اقدامات کے لئے صرف سائنسی تحقیق کی اجازت دے دی گئی۔ 2018ء تک 182 ممالک نے معاہدے کی توثیق کی جن میں سے کسی پر حیاتیاتی ہتھیاروں کا پروگرام جاری رکھنے کا الزام ثابت نہیں ہوسکا، تاہم چندممالک کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
پابندیوں کے باوجود جنگی صلاحیتوں کا حصول جاری
اقوامِ عالم چند ممالک پر اس حوالے سے نگاہ رکھتی ہیں کہ وہ اب بھی مشتبہ پروگرام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔حیاتیاتی ہتھیار کنونشن(بی ڈبلیو سی) کی شرائط کے تحت ممبر ممالک حیاتیاتی ہتھیاروں کا جنگ میں استعمال، پیداوار،ریسرچ اور ان کی تعیناتی نہیں کرے گا۔ تاہم متعدد ریاستوں نے حیاتیاتی جنگی صلاحیتوں کا حصول جاری رکھا ہوا ہے۔
حیاتیاتی ہتھیار کنونشن (بی ڈبلیو سی) کے پاس معاہدے پر عملدرآمد،تصدیق اور معائنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں، لہذا معاہدے پر دھوکہ دہی کسی بھی ثبوت کے بغیر کی جاسکتی ہے جبکہ ایٹمی ہتھیاوں کی نسبت حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری پر زیادہ بڑی لاگت نہیں آتی۔
دفاع اور جنگ کیلئے حیاتیاتی ہتھیار اہم ترجیح
یہ پروگرام خفیہ اور زیادہ محفوظ ہوتے ہیں۔ان کو آسانی سے دواسازی کی فیکٹری اور لیبارٹری میں خفیہ طور پر تیار کیا جاسکتا ہے، اس لئے یہ ممکن ہے کہ ایک چھوٹا اور غریب ملک بھی چند ماہرین حیاتیات کے ساتھ حیاتیاتی جنگی پروگرام کامیابی کے ساتھ جاری رکھ سکے۔
کچھ ریاستیں کم بجٹ اور عسکری طاقت میں اضافے کے لئے حیاتیاتی ہتھیاروں کا حصول جاری رکھ سکتی ہیں جو ان کے خفیہ پروگرام کا حصہ ہوسکتا ہے،اسی لئے حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری ،مقدار اور پھیلاﺅ معلوم کرنا بے حد مشکل ہے۔
حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال دہشت گردوں اور شدت پسند تنظیموں کے لئے بھی آسان ہے۔جیسا کہ ماضی میں دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کی مثالیں موجود ہیں، اس لیے حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال ممالک اور تنظیموں کی اہم ترجیح بن چکا ہے۔
تنظیمیں اور حیاتیاتی ہتھیار
بہت عرصہ پہلے 1980ء کی دہائی میں بھارتی گرو بھگوان شری رجنیش کے جلاوطن پیروکار امریکہ کے علاقے اوریگون کی واسکو کاؤنٹی میں آباد ہوگئے ۔انہوں نے قریبی شہر انٹیلپ کا سیاسی کنٹرول سنبھال لیا اور اس کا نام بدل کر رجنیش رکھ دیا۔
جلاوطن پپیروکاروں نے 1984 میں ایک اور قریبی شہر ڈیلس میں سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کے لئے رائے دہندگان پر اپنا کنٹرول بڑھانے کی کوشش کی ۔ ملک بھر میں ہونے والے انتخابات قریب آتے ہی اس گروہ نے دکانوں،ریسٹورنٹ اور پانی کی فراہمی کی لائنوں کو جراثیم کے ذریعے آلودہ کردیا۔
کیمیائی حملے کے باعث 751 افراد بیمار ہوگئے، ایک سال بعد اس سازش کا پتہ چلا جب گروہ کے ایک ممبر نے جراثیم پھیلانے کااعتراف کیا۔سن 1990 سے 1995 کے دوران (اے یو ایم) شنریکو فرقے(جاپانی دہشت گرد تنظیم) نے جاپان میں اہداف پر حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔
مہارت حاصل نہ ہونے کے باعث ان کے یہ حملے ناکام رہے۔ اس کے باوجود انہوں نے یوکوسوکا میں امریکی بحری اڈے سمیت مختلف اہداف پر اینتھریکس اور بوٹولینم ٹاکسن کا استعمال کرتے ہوئے چار حملوں کی کوشش کی۔
بعد ازاں 2001ء سے 2002ء کے دوران القاعدہ نے امریکی اور افغان شمالی اتحاد کی افواج کے زیر اقتدار آنے سے قبل افغانستان میں اینتھریکس لیبارٹری قائم کی جہاں انہوں نے حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال میں دلچسپی ظاہر کی۔
اسی سلسلے میں 2001ء میں امریکہ میں سیاست دانوں اور دیگر نمایاں شخصیات کو انتھراکس سے بھرے خط بھیجے گئے تھے۔جس کے باعث 5 افراد ہلاک ہوگئے اور 22متاثرہ افراد کو اسپتال میں طبی امداد دی گئی۔
کانگریس کے دفتر کی عمارتوں، گورنر نیو یارک کے دفتر ، متعدد ٹیلی ویژن نیٹ ورک ہیڈ کوارٹرز اور ایک اخبارکے دفتر کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ جس کے باعث ان عمارتوں اور دفاتر کی صفائی اور تحقیقات پر اربوں ڈالرکے اخراجات ہوئے۔
اس واقعے کے 9 سال بعد 2010ء میں میں ایف بی آئی نے اپنی تحقیقات کو بند کردیا ۔ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق یہ خط ایک مائیکرو بائیولوجسٹ کے ذریعہ بھیجے گئے جنہوں نے امریکی فوج کی حیاتیاتی دفاعی تحقیق میں برسوں تک کام کیا تھا اور جنھوں نے کیس میں مشتبہ نامزد ہونے کے بعد 2008ء میں خودکشی کرلی تھی۔
حرفِ آخر
حیاتیاتی ہتھیاروں کا پتہ لگانا مشکل ہے جبکہ کم خرچ اور استعمال میں آسان ہیں جس کی وجہ سے وہ دہشت گردوں کے لئے کشش کا باعث بنتے ہیں۔ حیاتیاتی ہتھیار کی لاگت ایک روایتی ہتھیار کی لاگت کے مقابلے میں 0.05 فیصد ہے،جبکہ ان کی پیداوار بہت آسان ہے۔
یہ ہتھیار بنانے کے لئے عام ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاسکتا ہے ، جیسا کہ دوائیں ، کھانے پینے کی اشیاء، اسپرے ڈیوائسز ، مشروبات اور اینٹی بائیوٹکس کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔
حیاتیاتی ہتھیار کے بارے میں ایک اہم عنصر جو دہشت گردوں کو راغب کرتا ہے وہ یہ ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کی تفتیش شروع کرنے سے پہلے ہی وہ آسانی سے فرار ہوسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ممکنہ حیاتیات کے اثرات کی مدت 3 سے 7 روز ہوتی ہے۔
چند روز کے بعد ہی نتائج سامنے آنا شروع ہوتے ہیں تاہم حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق معلومات کو انٹرنیٹ پر بڑے پیمانے پر پھیلادیا گیا ہے جبکہ بنیادی سائنسی معلومات بھی دنیا بھر کی حیاتیاتی لیبارٹریوں کے بہت سے محققین کی رسائی میں ہے۔
ان تمام حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ دہشت گرد مستقبل میں زہر اور بیماریوں کے وائرس کو ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔