آذربائیجان کی صدارت میں اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے ماحولیاتی تبدیلی کی 29ویں کانفرنس عالمی ماحولیاتی سفارت کاری میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔
یہ کانفرنس ایسے وقت میں منعقد ہوئی جب دنیا غیر معمولی موسمیاتی واقعات سے متاثر ہوئی، شدید گرمی، جنگلات کی تباہ کن آگ، سیلاب اور طوفانوں نے مختلف براعظموں میں تباہی مچائی۔
اس بگڑتے ہوئے ماحولیاتی بحران کے پیش نظر کوپ 29 کا مرکزی مقصد دنیا کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کے لیے مالی امداد کو بڑھانا تھا تاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر سکیں۔
اس کانفرنس کو ماحولیاتی مالیات کے طور پر نامزد کیا گیا، جس نے 2009 میں مقرر کردہ 100 ارب ڈالر سالانہ کے عہد کو تبدیل کرنے کے لیے ایک نئے اور زیادہ بلند مالیاتی ہدف کا تعین کیا۔ کوپ 29 نے کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں، جن میں نیا ماحولیاتی مالیاتی ہدف، کاربن مارکیٹ کی تنظیم، نقصان اور تلافی فنڈ کا عملی نفاذ اور موافقت پالیسی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی مذاکرات میں “ماحولیاتی مالیات” کا مطلب وہ مالی امداد ہے جو ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کو فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ ماحولیاتی اہداف حاصل کر سکیں۔ اس میں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے اقدامات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کی حکمت عملیوں کے لیے مالی امداد شامل ہے۔
کوپ 29 میں “نیا اجتماعی مقدار شدہ ماحولیاتی مالیاتی ہدف” (این سی کیو جی)کے تحت ترقی پذیر ممالک کے لیے سالانہ ماحولیاتی مالیات کو 2035 تک 300 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ مزید برآں 2035 تک عوامی اور نجی ذرائع سے 1.3 ٹریلین ڈالر سالانہ متحرک کرنے کا ہدف بھی شامل کیا گیا۔
اگرچہ 300 ارب ڈالر کا ہدف متاثر کن معلوم ہوتا ہے، لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے پیش نظر یہ رقم ناکافی ہے۔ مثال کے طور پر، صرف پاکستان کو حالیہ سیلاب کے دوران 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، جو کہ نئے ہدف کا دسواں حصہ بنتا ہے۔
دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے ضروری مالی وسائل اس ہدف سے کہیں زیادہ ہیں۔ عرب اور افریقی گروپوں نے سالانہ 1 ٹریلین سے 1.3 ٹریلین ڈالر تک کے مالیاتی اہداف کی تجویز دی، جب کہ پاکستان نے کم از کم 2 ٹریلین ڈالر سالانہ کی تجویز دی، حالانکہ اس کے لیے وقت کا تعین نہیں کیا گیا۔
ماحولیاتی مالیات کی فراہمی پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان اختلافات نے مسئلے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک براہِ راست عوامی فنڈز کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ ترقی یافتہ ممالک نجی شعبے کی سرمایہ کاری اور مارکیٹ پر مبنی حل پر زور دیتے ہیں۔ جی 77 اور چین کے گروپ نے قرضوں اور سرمایہ کاری پر مبنی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے براہِ راست مالی امداد کی حمایت کی۔
ماحولیاتی مالیات کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کئی چیلنجز باقی ہیں، جن میں قرضوں کے بوجھ کو بڑھانے والی شرائط اور مالی امداد کے پیچیدہ طریقہ کار شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کوپ 29 میں فوسل فیول کے خاتمے پر کوئی ٹھوس معاہدہ نہ ہو سکا، جس پر عالمی ماحولیاتی سیاسی ماہرین نے مایوسی کا اظہار کیا۔
ماحولیاتی مالیات کو ترقی پذیر ممالک کے لیے سستا، منصفانہ، دستیاب، اور قابلِ رسائی بنانا ضروری ہے۔ فنڈز کے استعمال میں شفافیت اور اہلیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں کے اقدامات پر خرچ ہوں۔ پاکستان کو ماحولیاتی مالیات کے بہتر استعمال کے لیے قومی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی، جس سے معیشت کی استحکام، خوراک کی سلامتی، اور زراعت کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
ماحولیاتی مالیات اور پائیدار ترقی کے درمیان ہم آہنگی ہی ماحولیاتی بحران کے حل کی جانب صحیح راستہ ہے۔ کوپ 29 نے ایک آغاز فراہم کیا، لیکن یہ سفر ابھی طویل اور چیلنجز سے بھرا ہوا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد شہباز /محمد کاشف
اسکول آف اکنامکس
بیجنگ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی
بیجنگ، چین
ای میل:
muhdshahbaz77@gmail.com