ملک میں ڈالر کی کمی بے شمار مسائل کا سبب بن رہی ہے کیونکہ اب پیداواری لاگت میں غیرمعمولی اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے کئی مقامی دوا ساز کمپنیوں نے کہا ہے کہ ان کے لیے ادویات تیار کرنا اور ان کی دستیابی کو یقینی بنانا ’مکمل طور پر غیر مستحکم‘ ہو گیا ہے۔ اگلے سات دنوں کے دوران 10 کے قریب دوا ساز کمپنیوں نے وفاقی وزارت صحت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کو الگ الگ نوٹس دے کر دعویٰ کیا ہے کہ اگر قیمتوں میں فوری اضافہ نہ کیا گیا تو وہ ایک ہفتے کے بعد ادویات کی پیداوار بند کر دیں گی۔
ملک میں ادویات کی بلا تعطل دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے مقامی دوا ساز صنعتیں خام مال کی درآمد پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے اس صنعت کو ایک تباہ کن دھچکا لگا ہے کیونکہ APIs یعنی ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمتوں میں COVID-19 کی وبا پھیلنے کے بعد سے بین الاقوامی مارکیٹ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
جولائی 2022 سے اب تک ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں تقریباً 26 فیصد کمی ہوئی ہے،مزید برآں، گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے جنوری 2023 کے ماہ میں کنزیومر پرائس انڈیکس میں 27.6 فیصد کا اضافہ ہوا۔تاہم وزارت صحت نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ملک میں ادویات کی کوئی کمی نہ ہو۔
ملک میں ڈالر کی کمی سے درآمدات بری طرح متاثر ہوتی ہیں جس پر ہمارے بیشتر شعبے انحصار کرتے ہیں اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے معاہدے میں تاخیر اور پاکستانی حکام کے لئے آئی ایم ایف کے سخت مطالبات نے غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے۔ حکومت کو اس معاملے کی سنگینی کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے کیونکہ پہلے ہی ادویات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور بہت سی ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں اور اگر مقامی فارما کمپنیاں پیداوار بند کر دیں گی تو ملک کے عوام کے لیے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔