سندھ حکومت کا گندم جاری کرنیکا فیصلہ، قیمت 1950 روپے فی من مقرر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

CM Murad Ali Shah presides over a cabinet meeting

کراچی :صوبائی کابینہ نے 15 اکتوبر سے گندم 1950 روپے فی من کے حساب سے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ آٹے کی قیمتیں مستحکم ہوسکیں۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت منگل کے روز وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ اجلاس میں تمام صوبائی وزراء ، وزیراعلیٰ کے مشیر اور معاونین خصوصی ، چیف سیکریٹری ممتاز شاہ اور چیئرمین پی اینڈ ڈی حسن نقوی اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔

کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خوراک مکیش کمار چاولہ نے بتایا کہ صوبائی محکمہ خوراک کے گوداموں میں 1.2 ملین میٹرک ٹن سے زائد گندم دستیاب ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت کی قائم کردہ پالیسی کے مطابق محکمہ خوراک ہر سال 15 اکتوبر کو گندم جاری کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجاب حکومت نے 1950 روپے فی من ( 40 کلوگرام) کے حساب سے گندم جاری کرنا شروع کر دی ہے۔

اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یکساں ریٹ کے تعین سے ملک میں آٹے کی قیمتیں مستحکم ہو جائیں گی، لہٰذا کابینہ نے 16 اکتوبر سے گندم 1950 روپے فی من ( 40 کلوگرام) کے حساب سے جاری کرنے کی تجویز کی منظوری دی۔

نالوں پر تجاوزات کے خاتمہ سے متاثرہ افراد کی بحالی:
وزیر بلدیات ناصر شاہ نے کابینہ کو گجر ، اورنگی اور محمود آباد نالوں کی بحالی کے بارے میں بتایا کہ کراچی میں مون سون 2020 کے دوران زیادہ بارش ہوئی جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شہر میں سیلاب آیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اربن فلڈ کی اہم وجہ بڑے نالوں پر وسیع پیمانے پر تجاوزات تھا جوکہ برساتی پانی کی نکاسی میں رکاوٹ تھے۔ ناصر شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے برساتی پانی کے نالوں کی صورتحال کا نوٹس لیا اور این ڈی ایم اے کو ہدایت کی کہ وہ نالوں کی صفائی کا کام سنبھالیں اور سندھ حکومت کے تعاون سے (متعلقہ نالوں اور اس کے آس پاس) تجاوزات ہٹائیں۔

عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ سندھ حکومت مذکورہ تجاوزات کو ہٹانے کی وجہ سے بے گھر افراد کی بحالی کیلئے این ڈی ایم اے کو تمام ضروری مدد اور تعاون فراہم کرے گی۔ اس کے بعد 15 ستمبر 2020 کو وزیراعلیٰ سندھ کی سربراہی میں صوبائی رابطہ اور عملدرآمد کمیٹی (پی سی آئی سی) تشکیل دی گئی۔ کمیٹی کی تشکیل کے بعد سے پی سی آئی سی نے بالترتیب پانچ اور آٹھ اجلاس منعقد کیے۔

بڑے نالوں محمود آباد ، گجر اور اورنگی کی صفائی کے مقصد کیلئے ہائیڈرولک اور ہائیڈرولوجیکل سروے کا کام این ای ڈی یونیورسٹی کو تفویض کیا گیا ۔ سروے نے ہر ایک تجاوزات کی زد میں آنے والے مکانات کو شناختی نمبر دیا جو ان نالوں کے راستوں میں تعمیر کئے گئے تھے ۔

28 دسمبر 2020 کو ہونے والے چوتھے اجلاس میں پی سی آئی سی نے اپنی سفارشات کو حتمی شکل دی جس میں دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ کے پی ٹی منصوبوں کا تفصیلی جائزہ ، تفصیلی مالی اخراجات ، برساتی پانی کے نالوں کی بحالی کیلئے راہ ہموار کرنا اور فنڈز کے اجراء کا شیڈول جس کی منظوری/توثیق کی گئی، جسے ہفتہ 02 جنوری 2021 کو پی سی آئی سی کمیٹی نے منظور کیا۔

ناصر شاہ نے کہا کہ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ آبادکاری کی امداد صرف متاثرین پر لاگو ہوگی۔ وزیر بلدیات نے کہا کہ جب اسٹرکچر کو جزوی طور پر مسمار کرنے کی صورت میں (30 فیصد تک)جو رہائشی نقل مکانی کی ضمانت نہیں دیتا اسے ادائیگی نہیں کی جائے گی اور اسی اجلاس میں ری سیٹلمنٹ سپورٹ ماڈل کی منظوری دی گئی جس کے دو کمپوننٹ مندرجہ ذیل ہیں: (1) ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کے دفتر کی طرف سے بایومیٹرک تصدیق کے ذریعے چھ ماہانہ بنیادوں پر 15000 روپے ماہانہ ،(2) ہر گھر کو دو سال کیلئے ، چھ ماہانہ اقساط کی بنیاد پر دیئے جائیں گے۔

مقامی طور پر بے گھر افراد (ایل ڈی پی) کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (این اے پی ایچ ڈی اے) کی جانب سے فیز I میں شروع کیے گئے ترغیبی ہاؤسنگ منصوبے سے انکار کرنے پر پہلا حق دیا جائے گا جس میں وفاقی حکومت کے ایک لاکھ یونٹس شامل ہیں۔

ہر یونٹ کیلئے تین لاکھ روپے کی سبسڈی NAPHDA اپنے منصوبے کے پہلے مرحلے میں کراچی LDPs کیلئے 30 ہزار یونٹس مختص کرے گا۔ مجوزہ ہاؤسنگ کی زمین سندھ حکومت مفت فراہم کرے گی۔ 20 مئی 2021 کو ہونے والی پی سی آئی سی کے پانچویں اجلاس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایل ڈی پی کو 15 ہزار روپے ماہانہ مالی امداد ،دو سال کیلئے 90 ہزار روپے کی دو سالانہ اقساط میں جاری کی جائے گی۔

اسپیشل معاوضہ، خصوصی کمیٹی کی سفارشات کے مطابق جائز لیز والوں کو دیا جائے گا۔ انکار کا پہلا حق تمام ایل ڈی پیز کو کراچی میں NAPHDA اسکیم کے آغاز پر دیا جائے گا جوکہ دیگر تمام قانونی معاملات کی تکمیل اور اسی اسکیم یا پروگرام کیلئے اہلیت کے معیار پر پورا اترنے سے مشروط ہے۔24 دسمبر 2020 کی ای سی سی (ECC)سمری میں وفاقی حکومت کی جانب سے ایل ڈی پی کیلئے فلیٹس کی تعمیر کیلئے 36 ارب روپے منظور کیے گئے اور یہ ایل ڈی پیز کو بلا معاوضہ فلیٹ فراہم کرنے کیلئے استعمال نہیں کئے جائیں گے۔

اس دوران گجر نالہ پر 344 سے زائد اور اورنگی نالہ پر 60 مکانات ، جن میں سائٹ ایریا کی 6 فیکٹریاں بھی شامل ہیں ان پر اینٹی انکروچمنٹ ٹریبونل اور سندھ ہائی کورٹ نے اسٹے آرڈر دیا۔ سپریم کورٹ نے 14 جون 2021 کو تمام عبوری قیام / حکم امتناعی اور جمود کے احکامات کو منسوخ کر دیا اور سندھ حکومت ، این ڈی ایم اے اور ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کو ہدایت کی کہ دونوں نالوں کی تمام اراضی اور راستے صاف کرے اور زمین پر قبضہ کرنے والوں کو مناسب معاوضہ دے کر انھیں بحال کیا جائے۔ اس مقصد کیلئے سندھ حکومت نے سپریم کورٹ میں تین علیحدہ درخواستیں دائر کیں جس میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رقم سے 10 ارب روپے سندھ حکومت کو جاری کرنے کی استدعا کی گئی تاکہ مطلوبہ ترقیاتی کام شروع کیے جا سکیں۔

ملازمین کی حقیقی تشخیص:
محکمہ خزانہ نے عالمی بینک کے تکنیکی معاون اجزاء کے تحت ایک معروف کنسلٹنٹ کے ذریعے ملازمین کے فوائد کی اسکیموں پر ایکچورئل ویلیو ایشن کا نتیجہ پیش کیا۔ نتائج میں پنشن اسکیم کی تشخیص کی رپورٹ: میڈیکل چارجز کی ادائیگی اور سول پنشنرز کو میڈیکل الاؤنس کی رپورٹ ،ریٹائرمنٹ رپورٹ کیلئے چھٹی کی تیاری کی نقد رقم ،جنرل پروویڈنٹ فنڈ رپورٹ ،متعین شراکت دارپنشن اسکیم پالیسی کے اختیارات کی رپورٹ ،پنشن پالیسیوں اور طریقہ کار کی معقولیت پر رپورٹ اور لائیف ایکسپکٹنسی کی رپورٹ پیش کی گئی۔

16-2015سے 19-2018کی مدت کے نتائج کے مطابق موجودہ آمدنی کے اخراجات (CRE) اوسط سالانہ 18.2 فیصد کی شرح سے بڑھتے ہیں، ملازمین سے متعلقہ اخراجات ERE)) اوسط سالانہ 15.3 فیصد کی شرح سے بڑھے لیکن پنشن بل 30.8 فیصد کی اوسط سالانہ شرح سے بڑھاہے ۔ کابینہ نے یہ معاملہ وزیر محنت سعید غنی ، وزیر توانائی امتیاز شیخ اور وزیر سماجی بہبود ساجد جوکھیو پر مشتمل کمیٹی کو رپورٹ اور تجویز کردہ اقدامات کا جائزہ لینے اور کابینہ کو واپس رپورٹ کرنے کیلئے بھیج دیا۔

موٹر وہیکل قوانین میں ترمیم:
سندھ کابینہ نے موٹر وہیکل رول نمبر 156 میں ایک ترمیم کی منظوری دی جس کے تحت موٹرسائیکل سواروں کو اپنی موٹرسائیکل پر سائیڈ والے شیشے لگانا ہوں گے تاکہ دونوں اطراف کی سائیڈ ٹریفک سے آگاہ رہ سکیں۔ یہ فیصلہ موٹر سائیکل سواروں کی حفاظت کیلئے کیا گیا ہے۔دریں اثنا کابینہ نے وزیر صنعت جام سیف اللہ دھاریجو کی درخواست پر پارٹنرشپ ایکٹ 1932 میں ترامیم کی منظوری دی تاکہ کاروباری برادری کی سہولت کیلئے کاروبار میں آسانی کو فروغ دیا جاسکے۔

ایکٹ کے مختلف حصوں میں ترامیم کی گئیں۔ محکمہ ٹرانسپورٹ نے موٹر وہیکل رولز 1969 میں کمرشل ٹرالیز اور فیس اسٹرکچر کو ریگولرائزیشن کے حوالے سے تجویز پیش کی جس میں زمین کے مطلوبہ علاقوں والے ٹرمینلز پر کابینہ نے اختلاف کیا اور محکمے کو ہدایت کی کہ وہ کابینہ کے ارکان کو ترامیم کی کاپیاں فراہم کریں تا کہ وہ اگلے اجلاس سے پہلے تجاویز کی اسٹڈی کر سکیں۔

جیلوں کے عملے کی تربیت کا ادارہ:
محکمہ داخلہ نے کابینہ کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے امریکی محکمہ خارجہ کی مالی مدد سے 149.931 ملین روپے کی لاگت سے حیدرآباد میں سندھ کی جیلوں کے عملہ کا تربیتی ادارہ قائم کیا ہے۔عمارت مکمل ہو چکی ہے اور ادارے کو کام کرنے کیلئے محکمہ جیل خانہ جات کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ کچھ سازوسامان، دفتری فرنیچر اور فکسر، اور انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ کیلئے گاڑیاں 48.5 ملین روپے میں خریدی جائیں گی۔ کابینہ نے یہ معاملہ منظوری کیلئے فنانس کمیٹی کو بھیج دیا۔

فالکنری گراؤنڈ:
سندھ کابینہ نے قطر کے ایک درخواست گزار کو فالکنری سیزن 22-2021کیلئے تحصیل جاتی ، ضلع سجاول کی غیر کاشت شدہ بیلٹ الاٹ کی۔

معافی:
کابینہ نے 9 عمر قید کے قیدیوں ساجد اقبال ، ظفر اقبال ، سید بلال ، محمد شاہد ، عبدالرشید ، قربان علی ، پیر بخش اور علی اکبر کو مختلف ادوار کے دوران تعلیمی بنیادوں پر معافی کی منظوری دی۔

Related Posts