وفاق المدارس السلفیہ کی شوریٰ نے وقف املاک ایکٹ مسترد کردیا

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

لاہور: وفاق المدارس السلفیہ کی مرکزی مجلس شوریٰ نے وقف املاک ایکٹ مسترد کردیا۔ اجلاس میں 6 سو سے زائد مدارس کے مہتمم حضرات‘ شیوخ الحدیث اور ان کے نمائندگان نے شرکت کی۔ 

تفصیلات کے مطابق وفاق المدارس السلفیہ کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اہم اجلاس سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی زیرصدارت ہوا۔ مرکزی مجلس شوریٰ کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر دینی مدارس کے خلاف بننے والے کسی قانون کی تسلیم نہیں کریں گے۔ 

سینیٹر پروفیسر ساجد میر کا کہنا تھا کہ ملک بھر کے دینی مدارس ومساجد وقف املاک ایکٹ کو غیر شرعی قراردے چکے ہیں،دینی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر اس ایکٹ پر عمل درآمد مشکل ہو گا۔ دینی مدارس ومساجد قیامت تک آبادرہیں گے، کوئی طاقت شعائراسلام پرقدغن نہیں لگاسکتی۔

یہ قانون نہ صرف اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات بلکہ آئین پاکستان اور قانون کے بھی خلاف ہے۔ تمام مساجد اور مدارس اس قانون کی مزاحمت کریں گے اور اس سلسلے میں تمام مکاتب فکر ایک ہی صفحے پر ہیں۔ اس قانون کا بل قومی اسمبلی سے منظور نہیں کروایا جا سکا، تاہم بعد ازاں اسے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے سامنے پیش کرکے قانون کی شکل دے دی گئی۔

قانون پاکستان میں مساجد و مدارس کے بارے میں عالمی استعمار کے اس مبینہ ایجنڈے کی تکمیل کا فیصلہ کن قدم ہوگا جس سے ڈیڑھ سو سال سے دینی تعلیم و عبادت کا آزادانہ کردار باقی نہیں رہے گا۔ہم اس قانون میں متنازع شقوں کو نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

قرار داد میں مزید کہا گیا کہ وقف املاک مسلمانوں کی میراث ہے اور یہ سلسلہ صدیوں سے چلتا آرہا ہے۔ ان کے بے شمار فضائل اور فوائد ہیں۔ تمام دینی مراکز مساجد اور اسلامی میراث وقف زمینوں پر قائم ہیں۔ حتی کہ بیت اللہ کے نام لاتعداد زمینیں وقف ہیں۔

وفاق المدارس السلفیہ کی مجلس شوریٰ کا یہ عظیم الشان اجتماع وقف ایکٹ پر تشویش کا اظہار کرتاہے۔ اور اسے مساجد اور دینی تعلیمی اداروں کے خلاف گہری سازش قرار دیتا ہے۔

یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اتحاد تنظیمات مدارس نے بالاتفاق جو ترامیم کیں ہیں۔ وہ فی الفور منظور کی جائیں۔ جس کا وعدہ ا سپیکر قومی اسمبلی نے کیا ہے۔ بصورت دیگر ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔ مدارس کے درمیان اتحاد واتفاق سے پاکستان میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوا۔

بدقسمتی آج کل ان کے خلاف محلاتی سازشیں ہو رہی ہے۔ اور مدارس کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ لیکن اہل مدارس اسے ناکام بنا دیں گے۔

پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ وفاق المدارس السلفیہ کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ کسی کے آلہ کار ہیں۔ یہ عظیم ترمقصد کے لیے اپنی صلاحتیں صرف کر رہے ہیں۔ انہوں نے وفاق المدارس السلفیہ سے وابستہ تمام شرکاء سے کہا کہ اگرچہ موجودہ حالات میں بہت سی مشکلات بڑھ گئی ہیں ۔ لیکن انہیں صبر واستقامت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر سازش کو ناکام کرتے ہوئے وفاق المدارس السلفیہ کے ساتھ وفاداری اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ انہوں نے وقف ایکٹ کو ظالمانہ قانون قرار دیا ۔ اور کہا کہ یہ متنازع اور غیر شرعی قانون ہے۔ جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔

ان سے قبل وفاق المدارس السلفیہ کے ناظم اعلی پروفیسر یٰسین ظفر نے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن سے کبھی مدارس نے انکار نہیں کیا۔ یہ عمل ورکنگ کمیٹی سے مشروط ہے۔ رجسٹریشن کے ساتھ دیگر امور بھی منسلک ہیں۔جن میں مدارس کے اکاؤنٹ کی بندش شامل ہے۔ حکومت کے عدم تعاون سے اعتماد سازی کی فضا متاثر ہوئی ہے۔ لہٰذا حکومت مدارس سے اولین فرصت میں مذاکرات کا عمل شروع کرے تاکہ یہ مسائل حل ہوں۔

اجلاس سے پروفیسر عبدالستار حامد نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وفاق المدارس السلفیہ کی ضرورت اور اہمیت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ یکساں نصاب اور نظام امتحانات کی بدولت تعلیم کا معیار بہتر ہوا ہے۔ انہوں نے کہ وفاق المدارس السلفیہ کے مقاصد بہت اعلی اور ارفع ہیں۔ محض اسناد اور ڈگریاں جاری کرنا نہیںبلکہ وحدت اورفکر وعمل سے طلبہ کی تعلیمی کارکردگی بہتر بنانا شامل ہے۔

قاری صہیب احمد میر محمدی نے کہا کہ مدارس کسی صلہ مداح کی تمنا کے بغیر یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ حکومت کو مدارس کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ لاکھوں طلبہ وطالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ اور ہزاروں افراد کو روز گار فراہم کر رہے ہیں۔ اجلاس سے شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم نے اپنے خطاب میں وفاق المدارس کے نصاب کو مثالی قرار دیا ۔

یہ بھی پڑھیں:ہم مولانا فضل الرحمن کے خلاف لکھے گئے خط کا حصہ نہیں ہیں، خدام اہلسنت

Related Posts