بچوں کو ذبح کرنے والا بشار دور کا سفاک شامی افسر مارا گیا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو غیر ملکی میڈیا

نئی شامی حکومت کے سیکورٹی اداروں نے بچوں کا قصاب کے نام سے مشہور بشار الاسد حکومت کے سفاک افسر شجاع العلی کی موت کا اعلان کردیا ہے۔

عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق شجاع العلی پر سابق حکومت کے دور میں بڑی تعداد میں شامیوں کے اغوا اور قتل کے الزامات تھے اور وہ 2012 کی حولا کے قتل عام کا مرکزی کردار تھا۔ بچوں کو ذبح کرنے کے اس دردناک واقعہ نے اس درندے کو بشار الاسد کے دور حکومت میں بدترین مجرموں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔
حولا میں کیا ہوا تھا؟

25 مئی 2012 کو بشار حکومت کی افواج نے تقریباً 10 گھنٹے تک حمص کے علاقے تلدو کا محاصرہ کیا اور اسے شدید گولہ باری کا نشانہ بنایا۔ اس کارروائی میں حکومتی افواج نے 118 عام شہریوں کو شہید کیا، جن میں 49 بچے اور 32 خواتین شامل تھیں۔

کیا آذربائیجانی مسافر طیارے کو مار گرایا گیا؟

اس قتل عام میں آگے چل کر شجاع العلی کی قیادت میں حکومتی ملیشیا “شبیحہ” نے آتشیں ہتھیاروں کا استعمال کیا اور تمام بچوں کے گلے چھری سے کاٹ دیئے۔ جن کی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔

اس قتل عام کے بعد اسے “الحولا کا قصائی” نام دیا گیا اور بعد میں سامنے آنے والی ویڈیوز میں اسے 7 سال سے کم عمر بچوں کو سر قلم کرنے کی خوفناک دھمکیاں دیتے ہوئے دکھایا گیا۔ الحولا قتل عام کو بشار دور کی بدترین قتل و غارت گری میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔
دردناک تفصیلات
حولا کے اس قتل عام کے بارے میں اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر موجود رپورٹس کے مطابق 100 سے زائد افراد، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے، مارے گئے۔

شامی نیٹ ورک برائے انسانی حقوق کے مطابق حکومتی افواج نے شہر کے اطراف میں موجود ہر شخص کو قتل کیا۔ انہوں نے بچوں کے ہاتھ باندھ دیے، خواتین اور مردوں کو ایک جگہ جمع کیا، پھر ان کو چاقوؤں سے ذبح کیا اور گولیاں مار کر انتہائی وحشیانہ طریقے سے ہلاک کیا۔

اس قتل عام میں چاقوؤں سے ذبح کرنے کا ذمہ دار شجاع العلی تھا۔ شامی نیٹ ورک نے تصدیق کی کہ اس قتل عام میں 118 افراد مارے گئے، جن میں 49 بچے (10 سال سے کم عمر) اور 32 خواتین شامل تھیں اور یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو وہ دستاویزی طور پر محفوظ کرنے میں کامیاب رہے۔

خوارج کو پاکستانی حدود میں داخل کرانے کی کوشش ناکام، پاک فوج کی جوابی کارروائی پر افغان طالبان اپنی پوسٹیں چھوڑ کر فرار

یہ قتل عام عالمی سطح پر ایک شدید صدمے کا سبب بنا اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے تمام رکن ممالک نے شامی حکومت کی جانب سے بھاری ہتھیاروں کے ذریعے شہریوں پر فائرنگ کی مذمت کی۔ اسی واقعہ کے بعد امریکا، برطانیہ اور دیگر گیارہ ممالک نے شامی سفیروں اور سفارتی اہلکاروں کو اپنے ملک سے نکال دیا تھا۔
شجاع العلی کا قتل
“مجزرة الحولة” (الحولا قتل عام) کے 12 سال بعد جمعرات کے روز شجاع العلی جو اس قتل عام میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں میں شامل تھا، شامی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا۔

اسے وزارت داخلہ کے تحت شامی عبوری حکومت کے فوجی اور سیکورٹی اداروں کے ساتھ شدید جھڑپوں کے بعد قتل کیا گیا۔ یہ جھڑپیں اس وقت ہوئیں جب سابق حکومت کے حامی مسلح افراد جو اپنا ہتھیار ڈالنے سے انکار کر رہے تھے، کا پیچھا کیا جا رہا تھا۔

برطانیہ میں نورووائرس نے کھلبلی مچا دی، یہ کیا ہے اور کیسے پھیلتا ہے؟

سیکورٹی فورسز نے حمص کے مغربی دیہی علاقے میں بلقسہ گاؤں کی ایک عمارت میں شجاع اور اس کے ساتھیوں کو محاصرے میں لے لیا اور ان سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا تاہم انہوں نے انکار کر دیا، جس کے بعد فورسز نے عمارت پر دھاوا بول کر انہیں ہلاک کر دیا۔
شامی خبر رساں ایجنسی “سانا” کے مطابق اس جھڑپ کے دوران سیکورٹی فورسز کے دو اہلکار شہید اور 10 دیگر زخمی ہو گئے۔

Related Posts