یوکرین پر روسی حملے کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یورپ میں تاریک ترین گھڑی قرار دیا جا رہا ہے جو ممکنہ طور پر ایک بہت بڑے تنازعے کو جنم دے سکتی ہے۔ روسی صدر پیوٹن نے توسیع پسندانہ عزائم کو دہراتے ہوئے جنگ روکنے کے لیے ہفتوں کی بے نتیجہ سفارتی کوششوں کے بعد زمینی، فضائی اور سمندری راستے سے یوکرین میں مکمل فوجی آپریشن کی اجازت دی۔
سرحدی شہروں میں فوج کے اترتے ہی روسی میزائل یوکرین کے شہروں پر برس پڑے جس میں کم از کم 50 یوکرینی فوجیوں کی ہلاکت کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ دارالحکومت کیف میں بھی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے پناہ گزینوں کے بحران کے بارے میں انتباہ کے بعد مکین شہرچھوڑ رہے ہیں۔
یوکرین نے روس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر کے اپنے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ حملہ آور قوتوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں۔ نیٹو کے سربراہ نے یہ کہتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے ہیں کہ دفاعی منصوبوں کو فعال کر دیا ہے لیکن فوج بھیجنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
معاشی اثرات پہلے ہی محسوس کیے جا چکے ہیں۔ عالمی مالیاتی منڈیاں ڈوب گئی ہیں اور تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اورایک طویل تنازعہ توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر سکتا ہے، افراط زر کو بھی بڑھا سکتا ہے جس سے معاشی نمو سست ہو سکتی ہے۔ یوکرین پر حملے کے بعدروسی کرنسی کو اپنی کم ترین سطح پر محسوس کیا گیا اور ماسکو اسٹاک ایکسچینج ایک ہی دن میں 10 فیصد گر چکی ہے۔
روس دنیا کی تیل کی سپلائی کا تقریباً 12 فیصد حصہ رکھتا ہے اور یورپی یونین کو تقریباً 40 فیصد گیس فراہم کرتا ہے۔ پائپ لائنوں کے یوکرین سے گزرنے کے باعث تنازعہ میں خلل پڑنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
مغرب سخت پابندیوں کی تیاری کر رہا ہے لیکن اس کے عالمی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور روس پر اس کا کوئی خاص اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے۔جنگ اور پابندیوں کے امکان نے وبائی مرض سے بمشکل ابھرنے والی عالمی معیشت کو خطرہ لاحق کردیاہے۔
یوکرین نے سوویت یونین کے زوال کے بعد آزادی کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ دیا اور اس کا مقصد نیٹو اور یورپی یونین میں شامل ہونا تھا ۔
روسی صدر نے یوکرین کو دشمنوں کی طرف سے مصنوعی تخلیق قرار دیا ہے جس نے دنیا کو غیر محفوظ بنانے کی طرف دھکیل دیا ہے۔