ایشیا کپ 2022، پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایشیا کپ 2022، پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے؟
ایشیا کپ 2022، پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے؟

ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ آج سے متحدہ عرب امارات میں شروع ہونے جارہا ہے۔

ٹورنامنٹ میں چھ ایشیائی ٹیمیں حصہ لیں گی لیکن جب سے ٹورنامنٹ کے شیڈول کا اعلان ہوا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے ٹورنامنٹ میں صرف دو ہی ٹیمیں ہیں۔

زیر بحث ٹیمیں

ایشیا کپ کا شیڈول جاری ہوا تو یہ حساب لگنے لگا کہ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تین میچز ہوسکتے ہیں۔

جسپریت بمرا ان فٹ ہو کر باہر ہوئے تو پاکستانی بلے بازوں نے سکون کا سانس لیا اور جب شاہین آفریدی ان فٹ ہوئے تو سبھی کی زبان پر یہی سوال تھا کہ اب کون پہلے اوورز میں بھارتی بلے بازوں کو روک پائے گا؟ کون پہلے ہی اوور میں گیند کو اندر لا کر اوپنرز کو کلین بولڈ یا ایل بی ڈبلیو کرے گا؟

ٹورنامنٹ کی باقی ٹیموں کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے؟

ٹورنامنٹ کے شیڈول کے آغاز سے پاکستان اور بھارت ہی زیر بحث ہیں لیکن اس سب کے دوران ٹورنامنٹ کی تیسری اہم ٹیم کو نظر انداز کیا جارہا ہے ، سری لنکا کو کوئی کیسے آخر بھول سکتا ہے جو بھارت کے بعد اس ٹورنامنٹ کی دوسری کامیاب ٹیم ہے۔

بھارت نے سات اور سری لنکا نے پانچ بار یہ ٹورنامنٹ جیتا ہے جبکہ پاکستان ٹیم یہ ٹورنامنٹ صرف دو بار جیتنے میں کامیاب رہی ہے۔ پھر اس ٹورنامنٹ میں افغانستان کی ٹیم بھی ہے جس نے پچھلے ایشیا کپ میں پاکستان کا سخت ترین مقابلہ کیا تھا۔

2019 کا ون ڈے ورلڈکپ ہو یا پچھلے سال انہی میدانوں پر ہونے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ، دونوں بار پاکستانی ٹیم افغانستان سے نہایت مشکل مقابلے کے بعد ہی کامیاب ہو پائی تھی اور پھر بنگلہ دیش بھی تو ہے جس نے پہلی بڑی کامیابی ہی 1999 کے ورلڈکپ میں پاکستان کے خلاف حاصل کی تھی اور 2012 میں ہونے والے ایشیا کپ میں بنگلہ دیش کی ٹیم ایک ناقابل یقین کارکردگی دکھا چکی ہے۔ ہانگ کانگ اس ٹورنامنٹ میں شامل چھٹی ٹیم ہے۔ لہٰذا ایسے میں کسی بھی ٹیم کی کارگردگی کو نظر انداز کرنا غلط ہوگا۔

آئی سی سی کی مجبوری

ایشیا کپ میں ٹیموں کی تعداد 6 ہے ، مگر یہاں پر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس پورے ٹورنامنٹ میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت کا میچ سب میچوں پر بھاری ہوتا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات، پھر باہمی کرکٹ کی سالوں سے معطلی دونوں ٹیموں کے میچز کی اہمیت کو اتنا بڑھا دیتی ہے کہ اب تو آئی سی سی بھی دونوں ٹیموں کو ایک ہی گروپ میں رکھنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ کہیں دونوں میں سے ایک گروپ مرحلے پر باہر ہو گئی تو منافع کیسے ہوگا۔

پاکستان ٹیم کو درپیش مسائل

پہلا مسئلہ

اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی فتح کے امکانات پر غور کریں تو اُس کا بہت زیادہ دارومدار پاکستانی بلے بازوں کے اسپن کھیلنے پر ہوگا۔ بحیثیت ایک ایشیائی ٹیم پاکستانی بلے بازوں کو اسپنرز کو کھیلنے کی مہارت ہونی چاہیئے۔ اگر ہم ٹی ٹوئنٹی کی بات کریں تو پاکستانی بلے باز اچھے اسپنرز کے خلاف مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔

کپتان بابر اعظم کی راشد خان کے خلاف مشکلات تو سبھی کے سامنے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ اوپنر محمد رضوان بھی اسپنرز خاص طور پر لیگ اسپنرز کے خلاف مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان کے تیز کھیلنے والے بلے باز فخر زمان ہو یا آصف علی اور خوشدل شاہ، فاسٹ باؤلرز کو تو بہتر کھیلتے ہیں پر اسپنرز کے خلاف یہ تینوں بھی مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔

دوسرا مسئلہ

پاکستان ٹیم کا دوسرا مسئلہ پہلے کھیلتے ہوئے مخالف ٹیم کے لیے مناسب ہدف سیٹ کرنا ہے۔ چند سال پہلے تک پاکستانی ٹیم ہدف کے دفاع کرنے میں ماہر تھی لیکن ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے اکثر دباؤ کا شکار ہو جاتی تھی پر اب صورتحال بالکل تبدیل ہوچکی ہے۔

بھارت کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کا میچ ہو یا جنوبی افریقہ میں ٹی ٹوئنٹی میچ، آسٹریلیا کے خلاف حالیہ سیریز کا دوسرا ون ڈے ہو یا سری لنکا کے خلاف سیریز کا پہلا ٹیسٹ، پاکستانی ٹیم بہادری کے ساتھ ہدف کے تعاقب میں کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ لیکن پہلے کھیلتے ہوئے اکثر پاکستانی بلے باز سستی کا شکار ہو جاتے ہیں، سب سے پہلے وکٹوں کے بچاؤ کے لیے جاتے ہوئے شروع میں نہایت سست کھیلتے ہیں اور رنز بنانے کی زیادہ تر کوششیں آخری اوورز کے لیے بچا کر رکھتے ہیں لیکن ایسے میں کہیں وکٹیں گر جائیں تو ایک اچھا ہدف کھڑا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

تیسرا مسئلہ

پاکستانی باؤلنگ شاہین شاہ آفریدی اور محمد وسیم جونیئر کے ان فٹ ہونے سے کافی کمزور پڑچکی ہے۔ شاہین آفریدی شروع کے اوورز میں وکٹیں گرا کر مخالف ٹیم کو دباؤ میں لاتے ہیں تو محمد وسیم درمیانے اور آخری اوورز میں اپنے باؤنسرز اور یارکرز سے رنز روکتے اور وکٹیں گراتے ہیں۔

محمد حسنین ہوں یا حسن علی، دونوں ہی اچھے باؤلرز ہیں لیکن انھیں اِن دونوں اَن فٹ باؤلرز کی کمی پوری کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ حسن علی کو خراب کارکردگی کی وجہ سے ٹیم سے باہر کیا گیا تھا لیکن دو انجریز کے بعد واپس بلانا پڑا۔ دیکھتے ہیں کہ ایشیا کپ میں اگر موقع ملتا ہے تو حسن علی اس کا فائدہ اٹھا پاتے ہیں یا ٹیم کی ناکامی کا باعث بنتے ہیں۔دوسری طرف حسنین باؤلنگ ایکشن میں تبدیلیوں کے بعد پہلی بار پاکستانی سکواڈ کا حصہ بنے ہیں-

کن باؤلرز سے امید کی جاسکتی ہے؟

ان حالات میں حارث رؤف اور نسیم شاہ کو سامنے آ کر ذمہ داری نبھانا ہو گی۔ حارث رؤف کو اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی جانب سے باؤلنگ میں لیڈ کرنا ہو گا۔ نسیم شاہ نیدرلینڈز میں دکھا چکے ہیں کہ رنز روکنے کی بجائے وہ وکٹیں حاصل کرنے کی طرف جاتے ہیں۔

اگرچہ ایشیا کپ میں نسیم شاہ کا سامنا نیدرلینڈز کے بلے بازوں سے کہیں زیادہ بہتر اور تجربہ کار بلے بازوں سے ہوگا لیکن پہلے ہی ون ڈے سیریز میں دس وکٹیں نسیم شاہ کے اعتماد میں کافی اضافہ کر چکی ہیں اور یہ اعتماد بڑے بلے بازوں کے خلاف بھی کافی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔

تجزیہ کار کا نام: شہزاد فاروق

Related Posts